کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 29
خواہش تھی جو ’شیطانی آیات‘ کے مصنف کا نام سنتے ہی بے اختیار ان کی زبان پر آگئی۔ اب رہ گیا یہ سوا ل کہ کیا توہین رسالت کے قانون کے طریق کار میں ترمیم سے اس قانون کا غلط استعمال رُک جائے گا؟ موجودہ طریق کار میں ترمیم سے پہلے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 156 کی رو سے پولیس اسٹیشن کے انچارج افسر کو دوسرے قابل دست اندازی پولیس جرائم کی طرح توہین رسالت کے جرم کی اطلاع پر ملزم کو گرفتار کرکے تفتیش کی کارروائی شروع ہوجاتی۔ اس طریقہ کار سے ملزم پولیس کی حراست میں آجانے سے قاتلانہ حملہ یا وارداتِ قتل سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ علاقہ یا ملک سے فرار ہونے کے راستے بند ہوجاتے۔ دفعہ 156/اے کے ضابطہ فوجداری میں اضافی ترمیم کے ذریعہ توہین رسالت کے جرم 295/سی تعزیرات کی تفتیش کا اختیار صر ف اعلیٰ پولیس آفیسر (ایس پی) کو دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایس پی صاحبان کواپنے ہیڈ کوارٹر آفس سے علیحدہ کرکے ملک بھر کے شہروں اور دیہاتوں کے تھانوں کے اندر لاکر تو بٹھایا نہیں جاسکتا۔ جبکہ مدعی اپنے قریبی تھانے میں براہ راست شکایت پیش کرسکتا ہے۔ ویسے بھی ایس پی حضرات صدر، گورنر، وزیروں، مشیروں اور افسرانِ سرکار کے جان و مال کے تحفظ کے لئے شب و روز مصروفِ کار ہوتے ہیں۔ ایسے ہمہ گیر مصروفِ اعلیٰ پولیس افسروں کو توہین رسالت کے ملزموں کے خلاف رپورٹ کی انکوائری کی فرصت کب ہوگی۔ توہین رسالت کا مدعی جس کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اپنی جان ومال اور ہر شے سے بڑھ کر ہوتی ہے، ایس پی صاحبان کی تلاش کی تگ و دو کے بعدان کے دفتروں کے چکر لگاتے پھرنے کے لئے صبر ایوب علیہ السلام کہاں سے لائے گا۔ تاریخ کے واقعات کا تسلسل بتلاتا ہے کہ اگر توہین رسالت کا قانون موجود نہ ہو یا اسے غیر موٴثر کردیا گیا ہو تو پھر جس مسلمان کے سامنے اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب ہوگا، وہ طریق کار کے طویل، صبر آزما چکروں کو چھوڑ کر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے گا اور مجرم کوموقع واردات پر ہی سزا دے گا جس سے قانون کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ قانونِ توہین رسالت ہونے کے باوجود ایسے سرفروش لوگوں کی کمی نہیں جو گستاخِ رسول