کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 28
وزیر مذہبی اُمور جناب اعجاز الحق نے برملا اعتراف کیا کہ پارلیمنٹ کو توہین رسالت کی سزا میں کمی یا تنسیخ کا کوئی اختیار حاصل نہیں اور نہ ہی حکومت کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔ لیکن چونکہ اس قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے، اس لئے حکومت چاہتی ہے کہ اصل قانون میں کسی تبدیلی کے بغیر صرف طریق کار یعنی ’پروسیجر‘ میں تبدیلی کی جائے۔کیسی تبدیلی؟ کے جواب میں انہوں نے بتلایا کہ اگر کسی نے توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال کیا یا غلط مقدمہ درج کرایا تو اسے سزاے موت دی جائے ۔ اس پر میں نے ہارون الرشید کے دور کا مشہور واقعہ سنایا کہ متنبی اس کے دربار کا بہت بڑا قصیدہ گو شاعر تھا۔ مگر تھا بلا نوش رند بھی۔ اس کے دورِ حکومت میں ایک محتسب اعلیٰ (Ombudsman) کا تقرر ہوا جو نشہ کی حالت میں پکڑے جانے والے شخص کو موقع پر ہی سزا دیا کرتا تھا۔ اس پر متنبی نے خلیفہ کو کو لکھ بھیجا کہ ان حالات میں وہ دربار میں حاضر ہونے سے قاصر ہے۔ ہارون الرشید کے لئے مشکل یہ آن پڑی کہ شراب نوشی کی سزاے حد کو معطل کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ دوسری طرف اس کا درباری قصیدہ گو ایسے سخت گر محتسب کی موجودگی میں اس تک پہنچ نہیں سکتا تھا۔ بادشاہ کی اس پریشانی کو دور کرنے کے لئے اس کے وزیر انِ باتدبیر نے اسے مشورہ دیا کہ اگر قانون کے طریق کار میں تبدیلی کی جائے تو یہ پیچیدہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے وہ اس طرح کہ شراب نوشی کی 80 کوڑوں والی سزا بھرصورت برقرار رہے گی لیکن طریق کار میں ترمیم کرکے شرابی کے خلاف رپورٹ کرنے والے کو 100 کوڑے مارے جائیں، مگر اس زمانہ کے لوگ معلوم ہوتا ہے کچھ انتہا پسند تھے جو اس ترمیم کے خلاف بھی اُٹھ کھڑے ہوئے جس پر حکمرانِ وقت کو یہ ترمیم واپس لینا پڑی۔ اس مذاکرے میں فیصلہ کن مرحلہ اس وقت پیش آیا جب وزیر مذہبی اُمور سے پوچھا گیاکہ اگر بدنام زمانہ رشدی ان کے سامنے آجائے تو وہ کیا کریں گے؟ تو انہوں نے وہی جواب دیا جومسلمانوں کی قومی نفسیات کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ ان کے لاشعور میں دبی ہوئی