کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 27
کو اظہارِ خیال کی دعو ت دی۔ اس مذاکرے میں راقم کے ساتھ وزیرمذہبی اُمور جناب اعجاز الحق، رکن قومی اسمبلی (پی پی پی) مسز فوزیہ وہاب اور مسٹر محبوب صدا ڈائریکٹر کرسچین سٹڈیز شریک ِگفتگو تھے۔ اس میں یہ امور زیر بحث آئے : کیا توہین رسالت کے قانون میں طریق کار کی تبدیلی سے اس قانون کا غلط استعمال رک جائے گا؟ کیا سزائے موت کا خاتمہ فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ کی خلاف ورزی ہوگا؟ اور کیا حکومت امریکہ کے دباوٴ پر قانونِ توہین رسالت تبدیل کرنا چاہتی ہے؟ مسز فوزیہ وہاب ایم این اے اور کرسچین لیڈر کی رائے میں توہین رسالت کے قانون کو ختم کیا جانا چاہئے۔ پاکستان کی باختیار پارلیمنٹ کو ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔ مسز فوزیہ وہاب نے متبادل تجویز بھی پیش کی جس کے مطابق اس جرم کی سزا زیادہ سے زیادہ سزا سات سال ہونا چاہئے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ تنسیخ یا ترمیم کے مطالبہ کا کیا جواز ہے؟ فرمایا: قرآن عفو اور درگزر کا حکم دیتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایذا دینے والے اور ان کی توہین کرنے والوں کو معاف کردیا تھا۔ مزید دریافت پر کہ کیا وہ قرآن کی رو سے یا مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد کا کوئی ایسا واقعہ بتلا سکتی ہیں جب گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجرم کو معاف کیا گیا ہے۔ اس پر اُنہوں نے کہا کہ اس بارے میں ان کا مطالعہ اتنا وسیع نہیں کہ اس وقت اس کا جواب دے سکیں۔ کرسچین کمیونٹی کے نمائندہ لیڈر مسٹر محبوب صدا کی توجہ اس طرف دلائی گئی کہ بائبل میں پیغمبر وں کی توہین کی سزا موت ہے۔ خود امریکہ اور برطانیہ میں جو سیکولر ہونے کے دعویدار ہیں وہاں بھی سزائے موت موقوف ہونے کے بعد توہین مسیح علیہ السلام کی سزا عمر قید کردی گئی ہے۔ اس پر موصوف نے جواب دیا کہ بائبل کی سزا یا اس کا قانون دنیا میں کہیں لاگو نہیں۔ ہمارا امریکہ اور یورپ سے کوئی تعلق نہیں، ہم یہاں پاکستان کی بات کررہے ہیں کہ اس قانون کے غلط استعمال سے یہاں کی اقلیتیں خوف زدہ اور غیر محفوظ ہیں۔ مگر انہوں نے بھی یہ تسلیم کیا کہ پاکستان میں ابھی تک کسی کو توہین رسالت کے تحت سزا نہیں دی گئی۔