کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 26
پاکستان کے قانونِ توہین رسالت کا سختی سے محاسبہ کیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے مذہبی آزادی اور حقوقِ انسانی سلب ہورہے ہیں۔ ان کی زندگی ،جان اور مال پاکستان میں غیر محفوظ ہیں۔ اگرچہ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس قانون کے سال 1991ء سے نافذ ہونے کے بعد سے اب تک ہائی کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ سے کسی شخص کو سزائے موت نہیں دی گئی اور نہ کوئی سزا یاب ہوا ہے۔ لیکن اس قانون کے تحت ملک بھر میں67 مقدمات زیرسماعت ہیں۔ یہ صورتِ حال بھی رپورٹ میں تشویش ناک بتلائی گئی ہے۔ مشرف حکومت کو ہمہ مقتدر صدر امریکہ جارج ڈبلیو بش کی دست ِراست مس کنڈو لیزا رائس نے پہلے ہی وارننگ دی ہوئی ہے کہ اگر پاکستان نے امریکن گورنمنٹ کے خلافِ مرضی کوئی کام کیا تو امریکی ضرب المثل کے مطابق گاجر کی تواضع ختم ہوگی، پھر چھڑی (Stick) سے اسے راہ راست پر لایا جائے گا۔ چونکہ صدر مشرف امن پسند اور صلح جو جنرل ہیں، ا س لئے انہوں نے امریکہ کی اس رپورٹ یا انتباہ پر نہایت پھرتی سے یوٹرن لیا اور توہین رسالت کے قانون کے اپنے پہلے بیان کے خلاف اُلٹی زقند لگائی۔ ایسی زقند وہ پہلے بھی کنڈولیزارائس کے پیش رو کولن پاول کی ایک کال پر لگا چکے ہیں۔ اس مرتبہ کے یوٹرن پرمئی 2004ء میں جنرل صاحب نے ضابطہ کار سے بھی آگے بڑھ کر قانونِ توہین رسالت پرنظرثانی کا اعلان داغ دیا۔ اس پرمسلمان عوام، ان کے قائدین اور دینی رہنما حکومت کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے۔ دوسری طرف وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج بھی میدان میں اُتر گئی۔ سیکولر دستے تو پہلے ہی سے ان کی مدد کے لئے موجود تھے مگر مصلحت ِوقت کے تقاضوں کے پیش نظر یہ تجویز سامنے لائی گئی کہ تمام اسلامی قوانین پر نظرثانی کی بجائے قانونِ قصاص و دیت کی دفعہ 299 میں ترمیم کی جائے۔ ترمیم کا یہ پرائیویٹ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ پہلے اس میں قانونِ توہین رسالت کی ترمیم شامل نہ تھی۔ یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ پاکستان کے ایک غیر سرکاری ٹی وی چینل نے 13/ مئی 2004ء کے ایک معروضی پروگرام میں ’توہین رسالت میں ترمیم‘ کے اہم موضوع پر راقم