کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 23
کو برقرار رکھتے ہوئے صدر مشرف کے ان بیانات کا اپنے کئی اداریوں میں سخت نوٹس لیا ہے۔ اپنے اداریے میں اس موٴقر جریدے نے صدر پرویز مشرف کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ”روشن خیالی اور اعتدال پسندی صرف پارلیمانی اداروں میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے اور نئے ٹی وی چینلوں کوکھلی چھٹی دے کر نشریات کا موقع فراہم کرنے کا نام نہیں، حدود آرڈیننس اور توہین رسالت ایکٹ کے خاتمے اور داڑھی ، پردے کو گھروں تک محدود کرنے سے بھی معاشرے میں رواداری، برداشت اور کشادہ نظری کا کلچر فروغ نہیں پاسکتا۔ اسلام اعتدال اور میانہ روی کا دین ہے، معاشرے میں ’انتہا پسندی‘ جمہوریت اور جمہوری کلچر سے گریز کا شاخسانہ ہے اور اسلام کے منافی اقدامات کا ردعمل ہے، جو مختلف ادوار حکومت میں مسلم اکثریت کے جذبات و احساسات کو بالائے طاق رکھ کر کئے جاتے رہے۔ رواداری اور اعتدال پسندی کا تقاضا ہے کہ اختلافی نقطہ نظر رکھنے والوں کو بھی برداشت کیا جائے۔امریکی حکمرانوں اور عہدیداروں کی ہر بات پر یس سر اور یس باس کہہ کر اُسے پورا کرنے پر تل جانا تقاضاے دانش مندی نہیں جو بدقسمتی سے عالم اسلام کے کئی حکمرانوں کا طرہٴ امتیاز ہے۔“ ( ’اقبال و قائد کا روشن خیال پاکستان؛ منطقی تقاضے‘ اداریہ 2/ جنوری2005ء) (ع۔ ص)