کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 22
”صدر کے اسلام کی روشن خیالی کے تصور پر وہ سارے دانشور حلقہ بگوش اسلام ہوگئے جو پہلے اسلام کے خلاف تھے جو اسلام کے نظام کو چودہ سال پرانا کہہ کر اس میں من پسند تبدیلیاں کرنا چاہتے تھے۔ جن کو تکلیف ہوتی تھی، جب کوئی یہ کہتا کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے۔ جو اسلام کو مولوی کی میراث سمجھ کر اس کی مخالفت کرتے رہے، جو اسلام کے نام لیواوٴں کی مخالفت کرنے کو اپنا دہرم سمجھتے رہے، جو اسلامی شعائر کا مذاق اُڑاتے رہے، جو کبھی روس کی، کبھی بھارت کی ایجنٹی کرتے رہے، جو آج بھی کسی کے ایجنٹ ہیں، وہ سارے اسلام کی روشن خیالی کے مبلغ ہیں۔“ وہ لکھتے ہیں: ”امریکی قونصل جنرل کے گھر مفت کی شراب پی کر وہاں سجدہ ریزی کرنے والوں کو بھی میں نے نظریہٴ پاکستان کی نفی کرتے، اسلام کا تمسخر اُڑاتے اور روشن خیالی اسلام کی تشریح کرتے دیکھا ہے۔“ پرویز مشرف صاحب کی توجہ اسلام کے روشن خیالی کے صحیح تصور کی طرف مبذول کرتے ہوئے ڈاکٹر اے آر خالد نے اُنہیں صحیح نصیحت کی ہے : ”جنابِ صدر! اسلام کی روشن خیالی یہ ہے کہ خدا کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کیا جائے۔ اس کے نسخہ میں اچھا ہونے کے لئے یہود و ہنود سے دوستی بے فائدہ ہے۔ اس کے نسخہ میں ایسا ہونے کیلئے اسے رازق اور مددگار ماننا ہے، کسی اور کو مددگار ماننے والے شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔“ (’ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ‘ نوائے وقت:یکم جنوری 2005ء) ٭ روزنامہ نوائے وقت ہی کے ایک کالم نگار جناب سعید آسی نے صدر پرویز مشرف کے بے باکانہ بیانات پر اپنے حیرت و استعجاب کا اظہار یوں کیا ہے : ”حیرت یہ ہے کہ ان کے ایسے بے باکانہ ارشادات بھی آسانی کے ساتھ ہضم کئے جارہے ہیں۔کیا شعائر ِاسلام کی اس سے بڑی تضحیک ہوسکتی ہے ؟ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدرِ مملکت یہ سب کچھ رواداری میں کہے جارہے ہیں، انہیں نہ کسی تعزیر کا دھڑکا ہے اور نہ کسی تحریک کا خوف، خود کو عقل کل سمجھ کر وہ اپنے فرمائے ہوئے کو ہی مستند سمجھ رہے ہیں جبکہ شعائر اسلامی کے دعویدار کئی حکومتی اکابرین بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائے جارہے ہیں۔“ ( مضمون ’ایسی بے باکی؛ ایسی بے بسی‘ نوائے وقت: 22/ دسمبر 2004ء) ٭ روزنامہ نوائے وقت نے حسب ِمعمول جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کی روایت