کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 21
اعتدال پسندی کے فلسفے کی عملی تعبیر کے لئے ایسے نازک اور حساس معاملات کو تختہٴ مشق بنانے لگے ہیں جن کا تقدس صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ عفت و حیا ہماری خواتین کا سرمایہٴ اعزاز ہیں، ہمارے ہاں پردے کا مسئلہ محض رواج نہیں، ٹھوس مذہبی حوالہ رکھتا ہے۔ جس طرح ہم مغرب کو نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنی عورتوں کو بے لباس، عریاں اور بے حیا نہ بنائے کہ اس سے ذوقِ لطیف مجروح ہوتا اور نسوانیت کی توہین ہوتی ہے،اسی طرح مغرب کو بھی یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ ہماری باپردہ اور حیادار خواتین کو پسماندگی اور تنگ نظری کا نمونہ قرار دے۔یہ تجزیہ کسی طور درست نہیں کہ نقاب میں چھپی خواتین نظریہٴ اسلام کی پسماندہ تصویر پیش کرتی ہیں۔ ’دہشت گردی‘ کی طرح پسماندگی اور روشن خیالی کے معنی میں خلط ملط کردیئے گئے ہیں۔ نیلگوں ساحلوں کے کنارے، مگرمچھوں کی طرح ریت پر پہلو بدلتی عریاں عورتیں، ترقی وروشن خیالی کا نمونہ ہیں اور نقاب و حجاب میں لپٹی وہ عفت مآب خواتین پسماندہ اور قدامت پرست ہیں جن کی چادروں سے فرشتوں کے پروں کی خوشبو آتی ہے اور جن سے سورج کی کرنیں بھی نگاہیں جھکا کر ملتی ہیں۔“ (نوائے وقت: 9/ دسمبر 2004ء) ٭ ایک اور کالم میں وہ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کو طنزاً ’جہاد اکبر ‘ کا نام دیتے ہوئے تبصرہ کرتے ہیں: ” گزشتہ دوتین سالوں سے پاکستان کو عالمی سطح پر ایک مہذب، روشن خیال اور اعتدال پسند ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں ’جہادِ اکبر‘ کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔ پاکستان کے بارے میں عمومی بین الاقوامی تاثر کے خراب ہونے کے اسباب میں انتہا پسندی، بنیاد پرستی، مذہبی جنون،کشمیر اورافغانستان میں دراندازی، دینی مدارس،فرسودہ نصابِ تعلیم،ناموسِ رسالت اور حدود آرڈیننس جیسے ضابطوں ،برقعوں اور داڑھیوں وغیرہ کی نشاندہی کی گئی۔ مرض کی تشخیص اور اسباب کے تعین کے ساتھ ساتھ شافی علاج کے لیے ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا مجرب نسخہ بھی تجویز کیا گیا ہے۔“ (نوائے وقت:23/دسمبر2004ء) ٭ صدر پرویز مشرف کی طرف سے نیا فلسفہ پیش ہوتے ہی ہمارے سیکولر دانشوروں میں سے بعض نے ’روشن خیال اسلام‘ کا راگ درباری الاپنا شرو ع کردیا ہے۔ ان مذہب بیزار دانشوروں کی اس منافقانہ روش پر طنز کرتے ہوئے معروف دانشور ڈاکٹر اے آر خالد، جو پنجاب یونیورسٹی میں شعبہٴ ابلاغیاتِ عامہ کے پروفیسر ہیں، لکھتے ہیں: