کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 2
کتاب: محدث شمارہ 285 مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور ترجمہ: بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکرونظر ’روشن خیالی‘ چہ معنی دارد؟ ٭ ”ہمیں انتہا پسند مولویوں کے اسلام کی ضرورت نہیں ہے، اگر کسی کو برقعہ اور داڑھی پسند ہے تو اسے اپنے گھر تک محدود رکھے۔ ہم انہیں برقعہ/داڑھی ملک پر مسلط نہیں کرنے دیں گے۔“ (نوائے وقت: 16/ دسمبر 2004ء) ٭ ”بعض شدت پسند مذہبی تنظیمیں ہمیں کئی صدیاں پیچھے لے جانا چاہتی ہیں۔ ہمیں زمانے کے ساتھ چلنا ہوگا۔ مذہبی جنونی چاہتے ہیں کہ میں چوری کرنے والے لوگوں کے ہاتھ کاٹ دوں۔ کیا میں سب غریبوں کے ہاتھ کاٹ کر قوم کو ’ٹنڈا‘ بنا دوں؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ شدت پسند عناصر ہم پر اپنا مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں لیکن ان اقلیتی لوگوں کو علم ہونا چاہئے کہ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ ہم انتہا پسندوں کو اپنے خیالات ٹھونسنے کی اجازت نہیں دیں گے۔“ (لندن میں خطاب: نوائے وقت: 8/ دسمبر 2004ء ) ٭ ”خواتین کو گھروں میں بند رکھنا ایک رجعت پسند نظریہ ہے۔ نقاب میں چھپی خواتین اسلام کی پسماندہ تصویر کشی کررہی ہیں۔ کچھ لوگ خواتین کو گھروں کے اندر رکھنا اور انہیں پردہ کروانا چاہتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔“ (بی بی سی کو انٹرویو: نوائے وقت: 8/ دسمبر 2004ء) ”پسماندھ اسلام ملکی ترقی کی راھ میں رکاوٹ ہے، کسی نے داڑھی رکھی ہے تو بسم اللہ۔ مجھے نہ کہو کہ میں داڑھی رکھوں، میں داڑھی نہیں رکھنا چاہتا۔ فلمی پوسٹر، میوزک، داڑھی نہ رکھنا، خواتین کا برقعہ نہ پہننا، شلوار قمیص، پینٹ اور ایل ایف او چھوٹے معاملات ہیں، انہیں ایشو نہ بنائیں۔ یہ چھوٹی سوچ اور چھوٹے ذہن کی بات ہے۔ پاکستان کو بڑے چیلنج درپیش ہیں!! ایشو یہ ہے کہ ملک میں کون سا نظام ہونا چاہئے؟ ہمیں تہذیب یافتہ اور جدید اسلام چاہئے۔ پاکستانی معاشرے میں طالبان طرز کے اسلام کی کوئی جگہ نہیں۔ ایسے اسلام سے سارے منصوبے دہرے رہ جائیں گے۔ میں پوچھتا ہوں کیا یہ غیر اسلامی ملک ہے؟ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے مگر ہمیں ایسا اسلام نہیں چاہئے جو معاشرے کو پسماندہ رکھے۔ ہم ترقی پسند