کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 19
کی ایجنٹی لکھ دی گئی ہے۔“ (روزنامہ جنگ: 23 /دسمبر 2004ء) جناب عبدالقادر حسن نے روشن خیالوں کا جو کچھ چٹھہ بیان کیا ہے، وہ بالکل حقائق کے مطابق ہے۔ جنرل مشرف کا اُنہوں نے نام نہیں لیا، مگر ان کا روئے سخن کس کی طرف ہے قارئین کو ٹامک ٹومیاں مارنے کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ فوراً اصل مخاطب تک پہنچ جاتے ہیں۔ ٭ جاوید چودہری بے حد ذہین اور مقبول کالم نگار ہیں۔ روزنامہ جنگ میں’زیرو پوائنٹ‘ کے عنوان سے مستقل کالم لکھتے ہیں۔ پاکستان کے عام شہری کی طرح وہ بھی ’روشن خیالی‘ کے بڑھتے ہوئے سائے سے پریشان لگتے ہیں۔ ’روشن خیال اور اعتدال پسند معاشرہ‘ کے عنوان سے اُنہوں نے ایک بے حد فکر انگیز کالم تحریر کیا جس میں یورپ میں مروّجہ ’روشن خیالی‘ کے بھیانک چہرے کو بے نقاب کرتے ہوئے اہل وطن کو اس فکری وبا کے مہلک مضمرات سے متنبہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ”پیرس شہر میں پچھلے دس برس میں نکاح کا کوئی ’سانحہ‘ پیش نہیں آیا۔ ابھی چند روز پہلے جب ایک جوڑے نے چرچ پہنچ کر باقاعدہ نکاح کی خواہش ظاہر کی تو اس واقعہ پر سخت حیرت کا اظہار کیا گیا۔ جس وقت یہ شادی وقوع پذیر ہورہی تھی، اسی وقت یہ انکشاف ہوا کہ پیرس شہر میں پچھلے دس سال میں طلاق کا کوئی کیس رجسٹر نہیں ہوا۔ کسی عدالت، کسی کونسل میں کوئی ایسا جوڑا نہیں آیا جس نے طلاق کا مطالبہ کیا ہو۔ لوگوں نے پوچھا ”کیوں؟“ جواب ملا: ”جب دس برس میں کوئی شادی ہی نہیں ہوئی تو طلاق کیسے ہوگی؟“ یورپی معاشرے کی وہ تصویر کشی اس طرح کرتے ہیں: ”یہ ایک روشن خیال اور اعتدال پسند معاشرے کی تصویر ہے۔وہ معاشرہ جس میں بچیاں بلوغت سے پہلے حاملہ ہوجاتی ہیں، زندگی میں کئی بار اسقاط سے گزرتی ہیں، نابالغ ہونے کے بعد ہر ہفتے بوائے فرینڈ بدلتی ہیں، کسی کی پارٹنر بن کر سال دو سال اس کے فلیٹ میں گزارتی ہیں، شراب خانوں اور کلبوں کی دلدل میں اُترتی ہیں۔ زندگی کے اس سفر کے دوران اگر قدرت ان کی گود ھری کردے اور وہ اس ہریالی کو سنبھال لیں تو انہیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا یہ بچہ ان کی کون سی بھول، کون سی محبت کی نشانی ہے۔ یہ بچے بھی دس سے چودہ برس تک ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس کے بعد کسی روز آنکھ کھلتی ہے تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اولاد بھی