کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 17
یوسف کے خاندان کے بار ے میں یقینی حد تک یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ پردے کے پابند ہیں۔ میاں نواز شریف کا گھرانہ بھی نیم پردے کا قائل ہے۔ یہ ایک نامکمل فہرست ہے مگر تب بھی یہ ایک ناقابل تردید ثبوت ہے اس بات کا کہ پاکستان میں پردہ کسی پر ’مسلط‘ نہیں کیا جاتا بلکہ یہاں کی اسلامی اقدار اور رواج دونوں کے احترام کی وجہ سے پردہ کی روایت مسلمہ ہے۔ عالم اسلام میں سعودی عرب میں تو خیر کسی عورت کو محرم کے بغیر سفر کرنے کی اجازت ہے نہ وہ ڈرائیونگ کرسکتی ہے۔ مگر ملائیشیا، یمن، اُردن، انڈونیشیا، بحرین، کویت وغیرہ میں کالجوں اور یونیورسٹی کی طالبات یا تو پردہ کرتی ہیں یا سکارف ضرور لیتی ہیں۔ صدر مشرف امریکہ آتے جاتے رہتے ہیں، اُنہیں چاہئے کہ وہ امریکہ میں مسلم خواتین کی ایک تحریک کے بارے میں معلومات ضرورحاصل کریں جس کا ماٹوہے:’حجاب میں آزادی‘(Freedom in Hijab) ان میں اچھی خاصی تعداد سفید فام امریکی عورتوں کی ہے جنہوں نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کرنے کے بعد پردہ اپنایا ہے۔ کیا صدر مشرف انہیں بھی ’پسماندہ‘کہیں گے۔ ویسے ان کے مربی جارج بش کو بھی کبھی ان پردہ پوش خواتین کو پس ماندہ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ اگر وہ کہہ بھی دیتے تو انہیں اپنے الفاظ واپس لینے پڑتے کیونکہ وہاں کا آئین بھرحال کسی طبقہ کی اس طرح کھلی تضحیک کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارے ہاں کا آئین بھی اس کی اجازت نہیں دیتا، مگر جہاں آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آرمی چیف، جمھوری حکومتوں کا تختہ اُلٹ دیتے ہیں، تو ان کاکچھ نہیں بگڑتا، وہاں پردہ جیسے شعائر اسلام کے خلاف بیان دینے میں ان کی باز پرس کیونکر ہوسکتی ہے۔ دانشوروں اور اہل قلم کا ردّ عمل صدر پرویز مشرف کے مذکورہ بیانات کے خلاف پاکستان کے سنجیدہ طبقہ نے شدید ردعمل کااظہار کیا ہے۔ ان میں صرف علما ہی نہیں، ان میں سیاستدان، صحافی، عدلیہ کے سابق ارکان اور جنرل مشرف کے حامی بعض مسلم لیگ (قائداعظم) کے سینئر راہنما بھی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سوائے مذہب بیزار انتہا پسند سیکولر دانشوروں کے، کوئی بھی سنجیدہ طبع شخص اس طرح کے بیانات کو تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا۔