کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 15
شرکت کرنے کے لئے جب وہ لندن میں مقیم تھے تو برطانوی حکومت نے انہیں ایک وفد کے سربراہ کے طور پر اسپین کا دورہ کرنے کی پیش کش کی تھی۔ شرط یہ تھی کہ وہ اپنے ساتھ اپنی بیگم صاحبہ کولے جائیں گے جو پردہ نہیں کریں گی۔ اپنے وقت کے سب سے بڑے مسلمان شاعر ودانشور نے برطانوی حکومت کی اس پیش کش کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنی بیگمات کے ساتھ کسی عوامی مجلس میں شریک نہ ہوئے۔ معلوم ہوتا ہے جنرل پرویزمشرف صاحب کے علم میں علامہ اقبال کی یہ ’تاریک خیالی‘ نہیں ہے ورنہ وہ یا تو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی فکر پر مبنی پاکستان بنانے کا ذکر نہ کرتے یا پھر انہیں نقاب پوش مسلمان عورتیں ’پسماندگی کی تصویر‘ ہرگز نظر نہ آتیں۔ عین ممکن ہے کہ عورتوں کو گھر کے اندر ’قید‘ رکھنے کی وجہ سے وہ اقبال کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے۔
٭ محمد علی جناح کے روشن خیال ہونے پر ہمارے تمام سیکولر اور سوشلسٹ دانشور متفق ہیں۔ جناح کا گھرانہ خاصا روایتی قسم کا تھا۔ ان کی والدہ پردے کی پابند تھیں، ان کی پھوپھیاں بھی پردھ کرتی تھیں۔ قائداعظم خود پردے کے متعلق اتنے سخت نہ تھے، ان کی بہن فاطمہ جناح بھی پردہ نہیں کرتی تھیں، مگر قائداعظم کے بیانات میں سے ایک بیان بھی پردے کی مذمت یا تضحیک پر مبنی نہیں ملتا۔ انہوں نے کبھی پردے کو پسماندگی کی علامت قرار نہیں دیا۔ قائداعظم کی تقاریر و بیانات کا مفصل ریکارڈ موجود ہے۔ بزمِ اقبال، لاہور نے ان کی تقاریر و بیانات کو پانچ جلدوں میں شائع کیا ہے۔ اس میں ایک بھی ان کابیان ایسا نہیں ہے جو صدر پرویز مشرف کی ’روشن خیالی‘کے لئے رہنمائی کا کام دے سکے۔ بلکہ مسلم لیگ کے کئی جلسوں کی رپورٹ کے ضمن میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ان جلسوں میں مسلمان خواتین شریک ہوتی تھیں مگر وہ دوسرے خیمہ میں پردے کی اوٹ میں مردوں سے الگ رہتی تھیں۔
مسلم لیگ 1940ء کے اجلاس کی تصویر میں ایک برقعہ پوش خاتون بھی نظر آتی ہیں، یہ بیگم مولانا محمد علی جوہر کی تصویر ہے، جو صوبہ یو پی کی نمائندگی کررہی تھیں۔ بانی پاکستان نے کبھی پردے کی اوٹ میں بیٹھ کر ان کی تقاریر سننے والی مسلمان خواتین کو یہ ہدایت نہ کی کہ”اب زمانہ بدل گیا ہے، لہٰذا تم پردھ چھوڑ دو۔“ نہ ہی انہوں نے بیگم محمد علی جوہر کے پردہ پر اعتراض کیا۔