کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 14
طرف مائل کرنے کے لئے انہوں نے زندگی بھر جدوجہد کی۔ مگر ان کی روشن خیالی بھی شاید ’ناقص‘ اور ’سطحی‘ تھی کیونکہ وہ برقعہ پہننے کو چھوٹا معاملہ نہیں سمجھتے تھے، نہ ہی داڑھی ان کی روشن خیالی میں رکاوٹ تھی۔ وہ عجیب ’روشن خیال‘ تھے جنہیں نقاب میں چھپی خواتین ’اسلام کی پسماندہ تصویر کشی‘ کرتی نظر نہیں آتی تھیں۔ جناب پرویز مشرف کو چاہئے کہ وہ سرسید کے دقیانوسی ہونے کا فتویٰ صادر فرمائیں۔ سرسید کی مندرجہ بالا تحریر سے ہم پر یہ بھی منکشف ہوتا ہے کہ ان کے دور میں بعض ’مخدوم‘ اور ’فخر قوم‘ ایسی نابغہ روزگار ہستیاں بھی تھیں جو انگریزوں سے ارتباط بڑھانے کے لئے اپنی عورتوں کو پردہ سے باہر لانا چاہتے تھے اور ان کی اس خواہش کی تکمیل کی راہ میں کوئی ملی حمیت بھی سد ِراہ نہ تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ ’فخر قوم‘ تھے جنہوں نے اس برصغیر کے جدید مسلمانوں میں بے پردگی جیسی ’ترقی پسندانہ‘ روش کو اپنانے کے لئے اولین دستے کا کام دیا، اور آج ان کے جانشین اسے ’روشن خیالی‘کا ناقابل انفکاک حصہ گردانتے ہیں!! ٭ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ’روشن خیال‘ ہونے کامعاملہ بھی ہمارے روشن خیالوں کے ہاں متنازع فیہ ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر جاوید اقبال کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اعتدال پسندی اور روشن خیالی کی ابتدا کی، مگر 1930ء اور 1940ء کے عشرے کے اکثر ترقی پسند مصنّفین نے علامہ اقبال کو رجعت پسند قرار دیا۔ صدر مشرف کیونکہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو ’روشن خیال‘ سمجھتے ہیں اور اس قوم کو ’اقبال کا اسلام‘ اپنانے کی تبلیغ بھی فرماتے رہتے ہیں۔ اسی لئے داڑھی اور پردہ کے بارے میں اقبال کے نقطہ نظر کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ اگر جنرل پرویز مشرف کی روشن خیالی کے میزان میں اقبال کی شخصیت کو تولا جائے، تو وہ ترقی دشمن اور ’انتہا پسند‘ قرار پائیں گے، کیونکہ انہوں نے کبھی خود تو داڑھی نہ رکھی مگر ہمیشہ داڑھی والوں کااحترام کیا اور ان سے داڑھی کے متعلق ایک بھی مصرعہ یا قول منسوب نہیں ہے جس میں انہوں نے داڑھی کی تضحیک کی ہو، نہ ہی انہوں نے کبھی کہا کہ ”مجھے نہ کہو کہ میں داڑھی رکھوں۔“ پردہ کے متعلق تو وہ انتہا درجہ کے ’بنیاد پرست‘ تھے۔ علامہ اقبال کی والدہ، تینوں بھنیں اور تینوں بیویاں پردے کی سخت پابندی کرتی تھیں، یہ ایک مشہور واقعہ ہے کہ گول میز کانفرنس میں