کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 13
صدر پرویز مشرف اتاترک کی طرح واضح طور پر اسلام کی نفی بھی نہیں کرتے۔ لندن میں بھی اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان لا إلہ إلااللہ کے نعرہ پر بنا تھا اور میں اب بھی یہ نعرہ لگانے کو تیار ہوں (نوائے وقت: 9/ دسمبر) اگر واقعی وہ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ پھر داڑھی اور شعائر اسلام کے متعلق ان کے بیانات ناقابل فہم ہیں۔ یہ شعائر ِاسلام اپنی روح کے اعتبار سے کلمہ طیبہ ہی کا پرتو ہی تو ہیں۔ کلمہ طیبہ پر یقین رکھنے والا مسلمان کسی ایسے شعارکی تضحیک کا تصور بھی نہیں کرسکتا جسے ملت ِاسلامیہ حکم الٰہی سمجھتے ہوئے صدیوں سے اختیار کرتی آئی ہے۔ ٭ سرسید احمد خان اپنے دور میں ’روشن خیال‘ اور ’ترقی پسند‘ سمجھے جاتے تھے۔ آج بھی اُنہیں اس حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ داڑھی کے بارے میں تو ان کے بارے میں کچھ لکھنا سعی لاحاصل ہوگا کیونکہ جس شخص نے ان کی تصویر دیکھ رکھی ہے، وہ داڑھی کے متعلق ان کے خیالات کو بخوبی جانتا ہے۔ اگرچہ سرسید مغربی تہذیب کے بہت سے مظاہر سے بے حد مرعوب تھے اور اپنی قوم کو ان کے اپنانے کی تبلیغ کرتے رہتے تھے مگر پردہ کے بارے میں ان کا نقطہ نظر اور طرزِ عمل اس وقت کے راسخ الاعتقاد مسلمانوں سے بالکل مختلف نہ تھا۔ ہمارے آج کے روشن خیال دانشور جو ’ملا‘ کے مقابلے میں سرسید احمد خان کے ’روشن خیال اسلام‘ کا بار بار تذکرہ کرتے رہتے ہیں، ان کی اطلاع کے لئے ہم سرسید احمد خان کے ایک مضمون سے درج ذیل اقتباس نقل کرتے ہیں : ”ان دنوں میں عورتوں کے پردے کی نسبت متعدد تحریرات اخباروں میں شائع ہوتی ہیں اور ہمارے بعض عزیز جن کو ہم لحمك لحمي کہہ سکتے ہیں اور بعض ہمارے مخدوم جن کو ہم فخر قوم کہہ سکتے ہیں، پردے کے مخالف ہیں مگر ہم کو گو لوگ نئے فیشن کا سمجھیں مگر ہم تو اگر اسی پرانے فیشن کے نہیں ہیں تو دقیانوسی مزاج کے تو ضرور ہیں اور اسی لئے ہم اپنے مخدوموں کی رائے کے مخالف ہیں اور عورتوں کا پردہ جو مسلمانوں میں رائج ہے، اس کو نہایت عمدہ سمجھتے ہیں۔ یہ خیال کرنا کہ اگرپردے کی رسم اُٹھ جائے تو ہندوستانیوں کو انگریزوں سے زیادہ راہ ورسم اور ارتباط کا موقع ملے گا، محض غلط خیال ہے۔“ (مقالاتِ سرسید: حصہ پنجم، صفحہ 186) سرسید اپنے ہم وطن مسلمانوں کی پسماندگی پر بہت دل برداشتہ رہتے تھے اور انہیں ترقی کی