کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 12
اسامہ بن لادن کی سخت مخالف ہے۔ پھر نہ جانے وہ ایک ہی وار میں سب علماء کو تختہٴ مشق کیوں بناتے ہیں۔ ویسے بھی یہ بات حقیقی روشن خیالی کے اُصولوں کے منافی ہے کہ ایک طبقہ کو بلااستثنا اس طرح کی تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ وزیر اعظم جناب شوکت عزیز نے بھی علماء ومشائخ سے خطاب کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ وہ ذمہ دارانہ کردا رادا کریں اور اپنے درمیان غلط لوگوں کو داخل نہ ہونے دیں جس سے ان کا امیج عوام میں متاثر ہوتا ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت )
اگر صدر صاحب اپنے خطبات میں داڑھی اور پردہ جیسے اسلامی شعائر کا یوں ہی مذاق اُڑاتے رہے، تو پھر حکومت علماء و مشائخ سے اس طرح کا کردار ادا کرنے کی توقع کیونکر کرسکتی ہے۔ اگر طبقہ علما (جنہیں آپ نفرت سے مولوی کہتے ہیں) اس قدر ہی قابل مذمت ہے تو پھر حکومت آئے دن علماء ومشائخ سے کنونشن بلانے کا ڈھونگ کن مقصد کی تکمیل کے لئے رچاتی رہتی ہے؟
پردہ اور اقبال وقائد
جنر ل پرویز مشرف قائداعظم اور علامہ اقبال کی روشن خیالی کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں۔ معلوم ہوتا ہے انہوں نے جناح اور اقبال کے سوانح و افکار کا بالاستیعاب مطالعہ نہیں کیا۔ ان دو اکابرین کے ناموں کا سہارا لے کر وہ مغرب کی روشن خیالی کو اسلام کے نام پر بننے والی اس مملکت ِخداداد میں رواج دینا چاہتے ہیں۔
نجانے ہمارے حکمران جناح اور اقبال جیسے اکابرین کے نام پر اپنی مزعومہ جدیدیت کو فروغ دینے کی حکمت ِعملی کیوں اختیار کرتے ہیں۔ اگر پرویز مشرف اتاترک کو واقعی اپنا آئیڈیل اور رول ماڈل سمجھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ سیکولرازم کے نفاذ کے لئے محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی آڑنہ لیں کیونکہ جن لوگوں نے ان دو شخصیات کے افکار کا مطالعہ کیا ہے، وہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کے پیش نظر سیکولر ریاست کا تصور ہرگز نہ تھا۔ اتاترک سیکولر، لبرل اور ملحد تھا، اس نے اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنچانے کے لئے بے حد سفاکانہ طرزِعمل اختیار کیا مگر کسی کے نام کی آڑ نہ لی۔