کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 11
راہنماوٴں نے بھی اس پر ناگواری خاطر کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے جنرل (ر) مجید ملک جو سیاستدان کے ساتھ ساتھ فوجی بھی ہیں، نے داڑھی اور برقعہ والے صدر مشرف کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ صدر مشرف سے بات کریں گے کہ اس طرح کے بیانات دینے سے پہلے مسلم لیگ کی قیادت سے مشورہ ضرور کرلیا کریں کیونکہ انہیں اس سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
(نوائے وقت:20/دسمبر2004ء)
ایک نظریہ غلط یا درست تو ہوسکتا ہے، مگر یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایک نظریہ کو ’وحشی یا جاہل‘ کہہ کر پکارا جائے۔ ایک انسان تو وحشی یا جاہل ہوسکتا ہے، مگر اس کا عقیدہ فی نفسہ جاہل کیسے ہوسکتا ہے۔ صدر صاحب خود اہل زبان میں سے ہیں، انہیں فاعل اور اسم فاعل کے درمیان علمی فرق کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے۔ اُنہوں نے اپنے مذکورہ بیانات میں جو اسلوب منتخب فرمایا، پاکستان کے حکمرانوں میں سے شاید سکندر مرزا جیسا بے دین شخص واحد حکمران ہے، جس کے اس طرح کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ 1956ء میں سکندر مرزا نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اسلام کے بارے میں ایسی ہی یادہ گوئیاں کیں۔ (دیکھیں طلوعِ اسلام)
ہم نے ’سرخ جنت‘ کے فریب خوردہ جذباتی انڈر گریجوایٹ نوجوانوں اور انتہا پسند مارکسٹوں کی زبان سے اس طرح کے بیانات تو بارہا سنے ہیں، کسی سنجیدہ طبع دانشور کو اس انداز میں بات کرتے ہوئے کم ہی دیکھا ہے۔
صدر مشرف نے اپنے بیانات کے ذریعے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ طبقہ علما سے بحیثیت ِاجتماعی بیزاری اور نفرت کرتے ہیں۔ وہ ان میں کسی قسم کے امتیاز کے روا دار نہیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام اسلام پسند علما اور دینی راہنماوٴں کو انتہا پسند سمجھتے ہیں۔ ایک قابل احترام طبقہ کے متعلق اس طرح کی تعمیم کو کوئی بھی پسند نہیں کرے گا۔ علما کے درمیان ایسے افراد موجود ہیں کہ جنہوں نے اپنے کردار سے روشن مثالیں قائم نہیں کیں، مگر ان کی معتدبہ اکثریت کریم النفس انسانوں پر مبنی ہے جنہوں نے اپنی زندگیوں کو قال الله وقال الرسول کے وظیفے کے لئے وقف کررکھا ہے۔ جنرل پرویز مشرف ’القاعدہ‘ کو پسند نہیں کرتے، اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس ملک کے اکثر علما ’القاعدہ‘ کی حکمت ِعملی سے متفق نہیں ہیں۔ علماکی ایک کثیر تعداد تو