کتاب: محدث شمارہ 285 - صفحہ 10
پسندوں کو ’بنیاد پرست‘ اور ’عسکریت پسند‘کہہ کر پکارنے لگے۔ ابھی کچھ عرصہ سے ’لبرل اسلام‘ کا ذکر ہونے لگا ہے۔ موجودہ حکومت نے باقاعدہ پالیسی کے طور پر ’روشن خیال اسلام‘ اور ’اعتدال پسند اسلام‘ کو متعارف کرانے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہم اسلام کا روشن خیال چہرہ دنیا کو دکھائیں گے۔ ہمارے صدر صاحب نے ایک بیان میں مولویوں کے اسلام کو ’وحشی اور جاہل اسلام‘ کا نام بھی دیا۔ 9/ ستمبر کے بعد امریکہ کے ’روشن‘ دماغوں نے ’اسلام‘ سے ’سول اسلام‘ کی ترکیب وضع کی ہے۔ گویا تہذیب سے عاری یہ ننگ ِانسانیت اسلام کو اپنے تئیں تہذیب سکھانا چاہتے ہیں۔
ہمارے جنرل صاحب جنہوں نے ’روشن خیال اعتدال پسندی‘کا بزعم خویش فلسفہ پیش کیا ہے، بارہا ارشاد فرما چکے ہیں کہ ”ہمیں مولویوں کا اسلام نہیں چاہئے۔ ہم روشن خیال اسلام کی بات کرتے ہیں۔“مگر انہوں نے ابھی تک نہ تو اپنے ’ روشن خیال اسلام‘ کے خدوخال بیان فرمائے ہیں اور نہ ہی مولویوں کے پیش کردہ اسلام کی خامیوں کی فہرست قوم کو پیش کی ہے۔
پہلی بات تویہ ہے کہ’مولویوں کے اسلام‘ کی بات یہی بے معنی ہے۔ کسی مولوی نے آج تک یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ”اسلام اس کا اپنا وضع کردہ ہے۔“ اسلام قرآن و سنت پر مبنی ابدی الہامی تعلیمات کا نام ہے۔ اگر صدر صاحب کی نظر میں واقعی کوئی ’مولویوں کا اسلام‘ بھی وجود رکھتا ہے تو پھر ان کا فرض ہے کہ وہ قوم کی راہنمائی فرمائیں کہ’مولویوں کے اسلام‘ اور ’حقیقی اسلام‘ میں کیا فرق ہے؟ اور وہ مولویوں کے اسلام کو قرآن و سنت کے مطابق نہیں سمجھتے؟ انہیں یہ بھی وضاحت کرنی چاہئے کہ وہ جس ’روشن خیال اسلام‘کی بات کرتے ہیں، اس کا مصدر و ماخذ قرآن و سنت ہے یا پھر ان کی شخصی لبرل تاویلات و تعبیرات جن کا اسلام کی حقیقی روح سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے؟ اگر واقعی وہ مولویوں کے تصورِاسلام کو تنقید کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں تو انہیں بے حد سنجیدہ استدلال کے ذریعے ان کی خامیوں کی نشاندہی کرنا چاہئے، فرانس یاکراچی میں عوامی جلسوں سے خطاب کے ذریعے اس طرح کے موضوعات پر شعلہ نوائی کا مظاہرہ کرنا کسی بھی اعتبار سے قابل قدر اُسلوب نہیں سمجھا جاسکتا۔
ان کا اندازِ بیان نہ صرف مذہب پسند عوام کو اچھا نہیں لگا، بلکہ ان کے بعض معتقد سیاسی