کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 99
درستی اسی میں ہوسکتی ہے کہ وہ بیوی اور ماں بنے،کیونکہ اسی غرض کے لئے وہ جسمانی اور روحانی دونوں اعتبار سے پیدا کی گئی ہے۔ (4)عورت کامردوں کے کاروبار میں حصہ لینا اور خارجی زندگی کے خطرناک معرکوں میں اس کی شریک بننا دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اپنے فطری جذبات کوقتل کر رہی ہے، اپنے ملکات کو مٹا رہی ہے اور اپنی رونق اور طراوت کو پژمردہ ،اپنی ترکیب کو خراب اور اپنی قوم کے جسم میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یورپین عورت کا منزل زندگی کے دائرہ سے قدم نکالنا ان ممالک کے علما کی نگاہوں میں قوم کے دل اور جگر پر زخم کاری نظر آتا ہے اور اس بات کا ایک نشان تصور کیا جاتا ہے کہ مرد چاہے تو عورت کو سخت سے سخت مصیبت و آفت میں مبتلاکرسکتا ہے۔ چنانچہ اب وہی اس حالت کا دائرۂ تنگ کرنے پر زور لگا رہا ہے۔ (5)عام طور پر نوعِ انسانی کی بہتری اور خاص کر خود عورت کی بہبودی کے لئے عو رتوں کا پردہ میں رہنا ایک ضروری امر ہے ۔ کیونکہ پردہ عورت کی خودمختاری اور استقلال کا ضامن اور اس کی حریت کا کفیل ہے، نہ کہ اس کی ذلت کی علامت اور اس کے اسیری کا پیش خیمہ اور ہم اس بات کو بیان کر آئے ہیں کہ پردہ عورت کے کمال کا مانع نہیں ،بلکہ وہ اسے کمال کے ذرائع واسباب مہیا کرنے والا ہے۔ تاہم چونکہ ہر چیز میں کچھ نقصانات بھی ضرور ہوتے ہیں ، اس لحاظ سے اگر پردہ میں بھی بعض جزوی مسائل پائے جائیں تو اس کے بالمقابل جو فوائد اور خوبیاں ہیں وہ حد سے بڑھ کر قیمتی ہیں اور سب سے زائد رو خوبی یہ ہے کہ پردہ عورت کو اپنے وظیفہ طبیعی کے دائرہ سے قدم باہررکھنے میں مانع ہے ۔وہ وظیفہ طبیعی جس میں ہر عورت کی سعادت کا انحصار ہے اور یہی پردہ عورت کو اپنی ان اعلیٰ خصوصیتوں کو نشوونما دینے کا موقع دیتا ہے جو اس معرکہ زندگی میں اس کے یکتا ہتھیار ہیں ۔ (6)مادّی مدنیت کی عورتوں میں چاہے جس قدرظاہری نمائش اور دل فریبی پائی جاتی ہے۔ لیکن وہ کامل جنس نسواں کی نمونہ یا کمالِ نسوانی کے راستہ پرچلنے والی ہرگز نہیں ہیں اور خود ان ممالک کے علما بھی اس حالت کے شاکی پائے جاتے ہیں اور اس رفتار کوروکنے کی کوشش کررہے ہیں ۔