کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 98
درجہ گھٹا ہواہے۔ عورت کی یہ کمزوری اس لئے نہیں کہ اس طرح پر وہ مرد کی مطیع اور اس سے حقیر بنی رہی بلکہ اس لئے کہ اس کا وظیفہ طبیعی اور خاص فرض اس سے زائد قوت کا خواہاں نہیں ہوتا جو اس کو دی گئی ہے۔ یہ ایک طبعی اور فطری حالت ہے، یعنی عورت ہزار کوشش کرے کہ وہ جسم اور اِدراک کے لحاظ سے مرد کی ہم پلہ بن جائے، لیکن یہ انہونی بات ہے اور وہ ہرگز اس مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتی۔ (2) ہرایک مخلوق کا خاص کمال ہے اور عورت کا کمال جسمی توانائی اور وسعت ِمعلومات پرموقوف نہیں بلکہ وہ ایک روحانی قوت میں منحصر ہے جو عورت کو بہ نسبت مرد کے بہت زیادہ اور اعلیٰ درجہ کی دی گئی ہے۔ وہ قوت کیا ہے؟ عورت کا رقیق، زیادہ شعور اور اس کے حد درجہ رقیق احساسات اور پھر ان سب پر بڑھ چڑھ کرعورت کانیکی کے راستہ پراپنی جان تک قربان کردینے کے لئے تیار رہنا۔ اس لئے اگر یہ مواہب اور فطری قوتیں اپنے صحیح قواعد کے مطابق عورت میں نشوونما پائیں تو وہ اپنے حقوق کی حفاظت وتائید کے لئے مرد کی طرح زور آور کلائی اور تیزدم تلوار کی محتاج نہ رہے،بلکہ یہی باطنی قوتیں اس کو معاشرت کے ایک ایسے اعلیٰ مرتبہ پرپہنچا دیں کہ اس کے سامنے عزت و تکریم کے لئے مردوں کے سرخود بخود جھک جائیں لیکن اللہ کریم نے اس کے ساتھ ہی یہ فیصلہ فرمادیا ہے کہ عورت کی یہ اندرونی قوتیں اس وقت نشوونما پاسکتی ہیں جبکہ وہ مرد کے زیراثر اور زیر حفاظت زندگی بسر کرے۔خواہ وہ اسی حالت میں رہ کر اپنے مواہب میں مرد پر فوقیت کیوں نہ لے جائے اور اسے اپنا بندۂ بے دام ہی کیوں نہ بنا لے پھربھی عورت کو یہ بات نہیں بھاتی کہ وہ مرد کو اپنی فطری خوبیوں کے دام میں اسیر کرلے کیونکہ ایسی صورت واقع ہونے میں اس کے ہتھیار کی برش (کاٹ)میں فرق آجاتاہے اور اس کی فطری محبت کی چمک دمک ماند پڑ جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ خود ایک ایسی کشمکش میں گرفتار ہوجاتی ہے جو اسے پسند نہیں آتی۔ (3)عورت اس کمال کو اس وقت تک کبھی حاصل نہیں کرسکتی جب تک وہ کسی مرد کی بیوی اور چند بچوں کی صحیح تربیت دینے والی ماں نہ ہو اور اس کی کچھ یہی وجہ نہیں ہے کہ حق بحقدار رسید والی مثل ہو۔ بلکہ عورت کے ملکات کا نشوونما اور اس کے اندرونی جذبات کی تہذیب و