کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 96
”مجھے بھی اجازت دیجئے کہ آپ کے ساتھ جنگ میں چلوں اور زخمیوں اور بیماروں کی دیکھ بھال کا کام کروں ، شاید اس طریقے سے اللہ تعالیٰ مجھے بھی رتبہ شہادت سے سرفراز فرما دے۔“
آپ نے فرمایا: (قري في بيتک ،فإن الله عزوجل يرزقک الشهادة)
”تم اپنے گھر ہی میں ٹک کر رہو، تمہیں اللہ (ایسے ہی ) شہادت کا رتبہ عطا فرما دے گا۔“
راوی کا بیان ہے: فکانت تسمی الشهيدة ”ان کا نام ہی شہیدہ پڑ گیا تھا۔“ (سنن أبي داود، الصلاة، باب إمامة النساء، :۵۹۱)
اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض غزوات میں چند خواتین اسلام نے حصہ لیا ہے، لیکن وہ محض گنتی کی چند عورتیں تھیں اور انہو ں نے وہاں جاکر مردوں کے دوش بدوش مورچے نہیں سنبھالے تھے، نہ توپ و تفنگ سے وہ مسلح تھیں ، بلکہ صرف پیچھے رہ کر فوجیوں کی خوراک اور مرہم پٹی کا کام کرتی رہی تھیں ۔ جس طرح حضرت اُمّ عطیہ انصاری رضی اللہ عنہا نے وضاحت کی ہے:
(غزوت مع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سبع غزوات، أخلفهم في رحالهم فأصنع لهم الطعام وأداوي الجرحی وأقوم علی المرضی) (مسلم، الجہاد، باب النساء الغازیات،الخ ح:۱۸۱۲،وسنن ابن ماجہ، الجہاد،ح:۲۸۵۶)
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی۔میں ان کے خیموں میں پیچھے رہتی، ان کے لئے کھانا تیار کرتی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی بیمار پرسی کرتی۔“
ان احادیث سے واضح ہے کہ جمعہ، جماعت، جنازہ او ر جہاد وغیرہ فرائض میں عورتوں کی شرکت کو ضروری قرار نہیں دیا گیا ہے، بلکہ ان کے ساتھ یہ خصوصی رعایت کی گئی ہے کہ گھر بیٹھے ہی ان کو ان فرائض کا اجروثواب مردوں ہی کی طرح مل جائے گا بشرطیکہ وہ گھریلو اُمور پوری ذمے داری سے ادا کریں ۔
شریعت کے ان احکام سے علم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے معاشرے میں آزادانہ نکلنے اور چلنے پھرنے کو پسند نہیں کیا اور کارزارِ حیات میں معاش کی جدوجہد کرنا مرد کی ذمہ داری ٹھہرایا ہے۔ عورت کی کوئی بھی حیثیت ہو، اس کی کفالت کا ذمہ دار مرد کوبنا یا گیا ہے، جبکہ مغربی معاشرے نے حق کے نام پر عورت کو اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔ کیا یہ عورت کا حق ہے ، یا اس پر ایک اور فرض لاد دیا گیا ہے!!
اسلام ہی طبقہ نسواں کا اصل محسن ہے اور اس نے ہردو صنف کی اس فطرت اور جبلت کے عین مطابق احکامات دیے ہیں ، جن پر عمل کرکے ہی معاشرہ خیر وفلاح کی منزل پاسکتا ہے۔
مزید تفصیل کے لئے راقم کی نو طبع شدہ کتاب ’عورتوں کے امتیازی مسائل و قوانین‘ کا مطالعہ کریں