کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 95
”ہم (عورتوں ) کو جنازے کی متابعت کرنے سے منع کردیا گیا ہے تاہم اس میں زیادہ سختی نہیں کی گئی۔“
(صحیح البخاری، الجنائز باب اتباع النساء الجنازۃ، ح:۱۲۷۸)
اور حدیث مذکور(نهيْنَا عَنْ اِتَّبَاعِ الْجَنَائِزِ)کےتحت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
فصل المصنف بين هذه الترجمة وبين فضل اتباع الجنائز بتراجم کثيرة تشعر بالتفرقة بين النساء والرجال، وأن الفضل الثابت فی ذلک يختص بالرجال دون النساء لأن النهي يقتضی التحريم أو الکراهة والفضل يدل علی الا ستحباب ولا يجتمعان وأطلق الحکم هنا لما يتطرق إلیه من الاحتمال ومن ثم اختلف العلماء فی ذلک ولا يخفی أن محل النزاع إنما هو حيث توٴمن المفسدة
( بحوالہ ابن منیر رحمۃ اللہ علیہ ، فتح الباری، الجنائز، باب اتباع النساء الجنائز:۳/۱۸۵)
”امام بخاری نے باب اتباع النساء الجنائز اور باب فضل اتباع الجنائز کے درمیان متعدد ابواب کے ساتھ فاصلہ کردیا ہے ، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں مرد و عورت کے درمیان فرق ہے اور جنازے میں شرکت کی جو فضیلت ہے، وہ صرف مردوں کے ساتھ خاص ہے۔ عورتیں اس کی مخاطب نہیں ۔ اس لئے کہ عورتوں کو جنازے میں شرکت سے منع کیا گیا ہے۔ یہ ممانعت تحریم یا کراہت کی مقتضی ہے۔جبکہ فضیلت استحباب پر دال ہے اور تحریم، یا کراہت فضل کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتے اور یہاں ”اتباع النساء الجنائز“ میں حکم کو مطلق رکھا گیا، کیونکہ ا س میں (دوسرے) احتمال (عدمِ فضیلت) کا بھی امکان ہے، اسی وجہ سے اس میں علما کے مابین اختلاف ہوا اور مخفی نہ رہے کہ اصل محل نزاع وہ صورت ہے جس میں کسی مفسدہ کا اندیشہ نہ رہے۔ (اور جس جگہ مفسدہ کا اندیشہ ہو وہ بالاتفاق ناجائز ہوگی)“
٭ جہاد بھی اسلام کاایک اہم فریضہ ہے، لیکن اسے بھی مردوں ہی پر فرض کیا گیا ہے، عورتوں پر نہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
(علی النساء جهاد؟ قال: نعم علیهن جهاد لا قتال فيه: الحج والعمرة)(سنن ابن ماجہ، المناسک، باب: الحج جہاد النساء، ح:۲۹۰۱)
”کیا عورتوں پر بھی جہاد فرض ہے؟“ آپ نے فرمایا: ”ہاں ! ان پر بھی جہاد فرض ہے، لیکن لڑائی والا جہاد نہیں ، ان کا جہاد حج اور عمرہ ہے۔“
غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت اُمّ ورقہ بنت نوفل رحمۃ اللہ علیہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا:
(ائذن لي في الغزو معک أمرض مرضاکم لعل الله أن يرزقني شهادة)