کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 92
سے انحراف کرے گا، امن و سکون سے محروم ہوجائے گا۔
اس لئے اسلام نے انسانی معاشرے کو فساد سے بچانے کے لئے مرد و عورت دونوں کے دائرۂ کار کو ان کی فطری صلاحیتوں کے مطابق متعین کردیا ہے ۔ مرد کا دائرہ کار گھر سے باہر ہے اور عورت کا اصل دائرہ کار گھر کی چاردیواری اور اسی بنیاد پر اس نے مرد اور عورت کے درمیان بہت سے اُمور میں فرق کیا ہے، جس کی مختصر تفصیل حسب ِذیل ہے :
معاشی کفالت کی ذمے دار ی مرد پر!
اسلام نے عورت کو کمانے (ملازمت کرنے یا تجارت و کاروبار کرنے) سے مستثنیٰ رکھا ہے اور نان و نفقہ کی ساری ذمے داری مرد پر ڈالی ہے۔ چنانچہ عورت جب تک، وہ غیر شادی شدہ ہے، ماں ، باپ یا بھائی یا بصورتِ دیگرچچا وغیرہ اس کے کفیل ہوں گے اور شادی کے بعد اس کا خاوند، اِسی اعتبارسے مرد کو عورتوں کا قوام (سربراہ، حاکم اور نگران ) کہا گیا ہے :
﴿اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَبِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِهِمْ﴾ (النساء:۳۴)
”مرد عورتوں پر قوام ہیں ، بہ سبب اس کے جو اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی اور بہ سبب اس کے جووہ مرد اپنے مالوں سے خرچ کرتے ہیں ۔“
مرد کی جس فضیلت کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ چونکہ خاندان کا کفیل وہ ہے اور تجارت و کاروبار اسی کی ذمے داری ہے۔ اس کو اسی قسم کی صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے اور وہی یہ بوجھ اُٹھانے کے قابل بھی ہے۔ اس لئے اس کی ذمہ داری کی نسبت سے اس کا حق بھی زیادہ ہے اور وہ حق یہ ہے کہ سربراہ خاندان بھی وہ ہے۔ مرد کی اس فضیلت اور تفوق کو دوسری آیت میں یوں بیان کیا گیا ہے: ﴿وَلِلرِّجَالَ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةً﴾ (البقرہ:۲۲۸)
”مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ (مرتبہ) حاصل ہے۔“
عورت کے لئے گھر میں رہنے کا حکم
اسلام نے عورت کو چونکہ بیرونِ خانہ کی ذمے داریوں سے مستثنیٰ رکھا ہے، اس لئے اس نے عورت کے لئے یہ تاکید کی ہے کہ وہ اپنا وقت گھر کے اندر گزاریں :
﴿وَقَرْنَ فِیْ بُيوْتِکُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَةِ الاُوْلٰی﴾ (الاحزاب:۳۳)