کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 91
مقصد ِتخلیق الگ الگ ہے اور دونوں کے دائرہ کار ایک دوسرے سے مختلف اور جدا گانہ ہیں ۔ بنا بریں شریعت ِاسلامیہ نے ذ ہنی و عملی فرق و تفاوت اور دائرہ کار کے اختلاف کی و جہ سے بہت سی چیزوں میں مرد و عورت کے درمیان فرق ملحوظ رکھا ہے اور بعض ذمہ داریاں صرف مردوں پرعائد کی ہیں ، عورتوں کو ان سے مستثنیٰ رکھا ہے۔ اسی طرح بعض خصوصیات سے عورتوں کو نوازا ہے، مردوں کو ان سے محروم رکھا ہے، لیکن ان فطری صلاحیتوں کے فرق وتفاوت کا مطلب کسی صنف کی برتری اور دوسری صنف کی کمتری و حقارت نہیں ہے۔ مثال کے طور پرمرد کے اندر اللہ تعالیٰ نے صلاحیت رکھی ہے کہ وہ عورت کو بار آور کرسکتا ہے، لیکن خود بارآور نہیں ہوسکتا، اس کے برعکس عورت کے اندر صلاحیت رکھی ہے کہ وہ بارآور ہوسکتی ہے، لیکن وہ بار آور کرنہیں سکتی۔ گویا مرد کے اندر تخلیق و ایجاد کا جوہر رکھا گیا ہے، تو عورت کو اس تخلیق و ایجاد کے ثمرات و نتائج سنبھالنے کا سلیقہ اور ہنر عطا کیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر مرد کو حکمرانی و جہانبانی کا حوصلہ عنایت کیا گیا ہے، تو عورت کو گھر بسانے کی قابلیت بخشی گئی ہے۔ مرد کے اندر قوت و عزیمت کے اوصاف رکھے گئے ہیں ، تو عورت کو دل کشی و دل ربائی کا جمال عطاگیا ہے اور اس کارخانہٴ عالم کی زیب و زینت کسی ایک ہی صنف کے اوصاف سے نہیں ہے، بلکہ دونوں قسم کے اوصاف سے ہے اور دونوں ہی انسانی معاشرے کے اہم رکن ہیں ۔ انسانی معاشرے کا وجود، اس کی بقا اور اس کا تسلسل ان دونوں میں سے کسی ایک ہی پر منحصر نہیں ہے کہ ساری اہمیت بس اسی کو دے دی جائے اور دوسرے کو یکسر نظر انداز کردیاجائے، بلکہ اس پہلو سے دونوں مساوی حیثیت رکھتے ہیں ۔ البتہ خصوصیات اور صلاحیتیں دونوں الگ الگ لے کر آئے ہیں ۔ اس لئے مرد جو کام کرسکتے ہیں ، عورتیں وہ سارے کام نہیں کرسکتیں ، لیکن ایسے مردانہ کام نہ کرسکنا، عورت کی تحقیر نہیں ہے۔ اسی طرح عورت کے بعض کام مرد نہیں کرسکتے، تو اس میں ان کے لئے حقارت کا کوئی پہلو نہیں ۔ دونوں اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اعمال کے مکلف ہیں ۔ اس لئے اسلام اسی بات کو پسند کرتا ہے کہ دونوں صنفیں اپنے اپنے دائرے میں کام کرکے قدرت کے منشا کی تکمیل کریں ۔ ایک دوسرے کے کاموں میں دخیل ہوکر فسادِ تمدن کا باعث نہ بنیں ۔ وہ ایک دوسرے کے معاون ہوں ، متحارب نہ ہوں ؛ حلیف ہوں ، حریف نہ ہوں ؛ جو بھی انسانی معاشرہ اس فطری اصول