کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 90
کرتی ہے تو اس کے لئے اس سے نجات حاصل کرنے کی کوئی صورت نہیں ، یہ تصور صحیح نہیں ۔ عورت کو مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں اسلام نے حق خلع عطا کیا ہے، البتہ اس نے مرد وعورت دونوں کو یہ تاکید کی ہے کہ دونوں اپنا یہ حق انتہائی ناگزیر حالات ہی میں استعمال کریں ۔ محض ذائقہ بدلنے کے لئے استعمال نہ کریں ۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو سخت گناہگار ہوگا۔
اسی طرح شریعت ِاسلامیہ نے مرد کو طلاق دینے کے بعد رجوع کا حق دیا ہے، اس میں عورت پر ظلم کی صورت ہوسکتی تھی کہ طلاق دینے کے بعد عدت کے اندر بار بار مرد رجوع کرلے اور یوں عورت کو نہ آباد کرے نہ مکمل آزاد کرے اور وہ بیچ میں معلق رہے، جس طرح زمانہٴ جاہلیت میں عورت کو اس طرح تنگ کیا جاتا تھا کہ نہ اس کو طلاق دیتے تھے نہ آباد کرتے تھے، طلاق دیتے اور عدت گزرنے سے قبل ہی رجوع کرلیتے، پھر طلاق دیتے اور پھر عدت گزرنے سے قبل رجوع کرلیتے اور یہ سلسلہ سالہا سال تک اس طرح معلق چلتا رہتا۔ شریعت نے اس ظلم کے انسداد کے لئے حق طلاق کو محدود کردیا کہ مرد دو مرتبہ تو طلاق دینے کے بعد رجوع کرسکتا ہے، لیکن تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع کا بالکل حق نہیں رہتا۔ پھر مسئلہ حتی تنکح زوجا غیرہ (یہاں تک کہ وہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے) والا آجاتا ہے۔
یہ چند مختصر اشارات ہیں جن سے واضح ہے کہ اسلام نے عورت کو عزت و احترام کا وہ مقام عطا کیا ہے جو کسی بھی مذہب اور نظام نے نہیں دیا۔
مرد اور عورت کے دائرہ کار کا اختلاف
اسی طرح اسلام کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے مرد اور عورت دونوں کے دائرہ کار کو بھی متعین کردیا ہے۔ اس امر میں تو اختلاف کی کوئی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہیں کہ قدرت نے مرد اور عورت دونوں کو الگ الگ مقاصد کے لئے پیدا فرمایاہے۔ اس لئے دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں صنفوں کی ذ ہنی و عملی صلاحیتوں میں قدرتی فرق کو بھی تسلیم کیاجائے اور اس فرق کی بنیاد پر دونوں کے دائرہٴ کار کے اختلاف کو بھی۔ اگرچہ دونوں اپنے اپنے دائرے میں انسانی زندگی کے لئے ناگزیر اور ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ عورت مرد سے بے نیاز نہیں رہ سکتی اور مرد عورت کو نظر انداز کرکے زندگی کی شاہراہ پر ایک قدم بھی نہیں چل سکتا، تاہم دونوں کی ذ ہنی صلاحیتوں میں فرق ہے، دونوں کا