کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 9
پر اپنی دانست اور صوابدید کے مطابق شرائط عائد کرتے ہوئے صلح یامعافی کا حکم جاری کرسکتی ہے۔ یہاں یہ عرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر مجرم فریق عدالت کی عائد کردہ شرائط پوری نہ کرسکے گا تو صلح یا معافی غیر موٴثر ہوجائے گی۔ توہین ِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم قانون میں تبدیلی! حکومت کے مجوزہ ترمیمی بل کی دفعہ 9 کے تحت ضابطہ فوجداری کی دفعہ 156 میں اضافہ کرتے ہوئے ذیلی دفعات 156’اے‘ اور 156’بی‘ کا اضافہ کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 156 کسی وقوعہ کی ابتدائی رپورٹ درج کروانے سے متعلق ہے۔ ترمیمی بل میں جو دو اضافے تجویز کئے گئے ہیں ۔ ان کا مفہوم حسب ذیل ہے: 156’اے‘: تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 ’سی‘ کے تحت جرم کی تفتیش : ”سپرنٹنڈنٹ پولیس کے عہدے سے کم رتبے کا کوئی پولیس افسر تعزیرات ِپاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت درج مقدمے کے ملزم سے تفتیش نہیں کرسکے گا۔“ 156 ’بی‘ : جرم زنا کی ملزمہ عورت کے خلاف تفتیش: ”جہاں جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈیننس 1979ء کے تحت جرم زنا کی ملزم کسی عور ت سے تفتیش مقصود ہو تو ایسی تفتیش سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے کم رتبے کا پولیس آفیسر نہیں کرسکے گا، نہ ہی ملزمہ عورت کو عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتار کیا جاسکے گا۔“ مجلس عمل نے بھی حکومتی بل کی بعض شقوں پر اعتراض کرتے ہوئے اسے مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ مجلس عمل کا موقف ہے کہ اس بل کے ذریعے شرعی قوانین سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی گئی ہے۔ مجلس عمل تسلیم کرتی ہے کہ غیرت کے نام پر قتل دراصل قتل عمد ہی ہوتا ہے اور قتل عمد کی واضح سزا ہمارے قانون میں موجود ہے مگر حکومتی بل 2004ء کی بعض دفعات قرآنی احکامات سے متصادم ہیں ۔ اس بل کی آڑ میں ولی یا مقتول کے ورثا سے معاف کردینے کا قرآنی حق چھینا جارہا ہے جو کہ پاکستان کے آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مجلس عمل کا کہنا ہے کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 178 واضح طور پرمعاف کردینے کا حق دیتی ہے۔ لیکن بل کی دفعات 3، 8 اور 10 قرآن کے عطا کردہ’ اس حق‘ کو سلب کرنے کے مترادف ہیں ۔ جبکہ دفعہ نمبر 3 میں غیرت کے نام پر قتل کی سزا صرف سزاے موت یا عمر قید ہی مقرر کی گئی ہے۔ ولی سے معافی یا صلح