کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 89
(لا نکاح إلا بولي) (سنن أبي داود، النکاح، باب فی الولي، ح:۲۰۸۵)
”ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ۔“
اس حدیث کی روشنی میں اکثر ائمہ کے نزدیک ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا، تاہم فقہا کا ایک گروہ اس حدیث کی تضعیف یا تاویل کی وجہ سے انعقادِ نکاح کا تو قائل ہے، لیکن اس کے ناپسندیدہ ہونے میں اُسے بھی کلام نہیں اور بعض شکلوں میں سرپرستوں کو ایسا نکاح فسخ کرانے کا اختیار بھی رہتا ہے۔
(فتح القدیر لابن ہمام:ج ۳/ص۲۵۵)
دوسری طرف عورت کی رضا مندی اور اسکی اجازت بھی ضروری قرار دی گئی ہے اور فرمایا:
(لا تنکح الأيم حتی تستأمر) (صحیح البخاري، النکاح، باب لاينكح الأب وغيرہ البکر والثيب إلابرضاهما، ح:۵۱۳۶)
”بیوہ عورت کا نکاح اس کے مشورے کے بغیرنہ کیا جائے۔“ اور (لاتنکح البکر حتی تستأذن) (حوالہ مذکور)
”کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔“
کنواری عورت کے اندر شرم و حیا زیادہ ہوتی ہے، اس لئے اس سے اجازت طلبی کا مسئلہ مشکل تھا، اسے بھی شریعت نے اس طرح حل فرما دیا کہ ’باکرہ‘کی خاموشی ہی اس کی اجازت اور رضا مندی ہے۔“ (حوالہ مذکور)
عورت کی رضا مندی اور اس کی اجازت کی شریعت میں کتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک واقعے سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک خاتون خنساء بنت خذام انصاریہ کا نکاح ان کے والد نے ان کی اجازت کے بغیر کردیا۔ انہیں یہ رشتہ ناپسند تھا۔ انہوں نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باپ کی شکایت کی تو آپ نے اس کو ناپسند فرمایا اور نکاح کو ردّ کردیا یعنی کالعدم قرار دے دیا۔
(صحیح بخاری، النکاح، باب إذا زوّج الرجل ابنته وهي کارهة فنکاحه مردود حديث: ۵۱۳۸)
(2) دوسرا مرحلہ:
شادی کے بعد اگر خاوند عورت کے نزدیک ناپسندیدہ ہو، تو اس سے گلو خلاصی حاصل کرنے کے لئے اسی طرح عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے، جس طرح مرد کو ناپسندیدہ بیوی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے طلاق کا حق حاصل ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مرد کو تو طلاق کا حق ہے، لیکن اس کے مقابلے میں عورت مجبور ہے۔ وہ اگر خاوند کو ناپسند