کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 88
ایک حمل کی تکلیف، جو نو مہینے عورت برداشت کرتی ہے۔ دوسری وضع حمل (زچگی) کی تکلیف، جو عورت کے لئے موت و حیات کی کشمکش کا ایک جاں گسل مرحلہ ہوتا ہے۔ تیسری رضاعت (دودھ پلانے) کی تکلیف، جو دو سال تک محیط ہے۔ بچے کی شیر خوارگی کا یہ زمانہ ایسا ہوتاہے کہ ماں راتوں کو جاگ کر بھی بچے کی حفاظت و نگہداشت کا مشکل فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ اس دوران بچہ بول کر نہ اپنی ضرورت بتلاسکتا ہے، نہ اپنی کسی تکلیف کا اظہار ہی کرسکتا ہے۔صرف ماں کی ممتا اور اس کی بے پناہ شفقت اور پیار ہی اس کا واحد سہارا ہوتا ہے۔ عورت یہ تکلیف بھی ہنسی خوشی برداشت کرتی ہے۔ یہ تین مواقع ایسے ہیں کہ صرف عورت ہی اس میں اپنا عظیم کردار ادا کرتی ہے اور مرد کا اس میں حصہ نہیں ۔ انہی تکالیف کا احساس کرتے ہوئے شریعت نے باپ کے مقابلے میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کی زیادہ تاکید کی ہے۔ نکاح میں رہنے یا چھوڑنے میں عورت کی رضامندی شادی سے قبل اس کی تعلیم وپرداخت کی فضیلت اور شادی کے بعد عورت سے حسن معاشرت کی تاکید کی تفصیل بیان ہوچکی ہے، لیکن عورت کے لئے دو مرحلے اس کی زندگی میں بڑے اہم موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ایک مرحلہ شادی سے قبل رشتہ ازدواج سے انسلاک میں اس کی پسند اور ناپسند کا مسئلہ ہے اور دوسرا مرحلہ وہ ہے کہ شادی کے بعد اگر خاوند صحیح کردار کا ثابت نہ ہو، تو اس سے گلوخلاصی کی کیا صورت ہے؟ ان دونوں مرحلوں کے لئے بھی اسلام نے عورت کے جذبات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسی معقول ہدایت دی ہیں کہ عورت پر کسی طرح سے جبروظلم نہ ہوسکے۔ (1) نکاح میں عورت کی پسند اور اس کے اختیار کے مسئلے میں بالعموم بڑی افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔کہیں تو عورت کو بالکل بے دست و پا بنا دیا گیا ہے، ا س کی پسند و ناپسند کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور کہیں ایسا بااختیار بنا دیا گیا ہے کہ ماں باپ اور اس کے سرپرستوں کی رائے اور مشورے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ اسلام نے اس افراط و تفریط کے مقابلے میں یہ راہِ اعتدال اختیار کی کہ ایک طرف ولی (سرپرست) کی ولایت اور اجازت کو ضروری قرار دیا اور فرمایا: