کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 87
(صحیح مسلم، النکاح، باب خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحہ، ح:۱۴۶۹)
٭ ماں کی حیثیت سے اسلام میں عورت کا مقام بہت اونچا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَوَصَّيْنَا الإنْسَانَ بِوَالِدَیْه حَمَلَتْه أُمُّه وَهْنًا عَلٰی وَهْنٍ وَفِصٰلُه فِیْ عَاْمَيْنِ أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَيْکَ﴾ (لقمان:۱۴)
”ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (حسن سلوک کی) بڑی تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے حمل کی مدت پوری کی اور ا س کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے۔ (یہ اس لئے) کہ وہ میرا اور اپنے والدین کا شکر اداکرے۔“
دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَوَصَّيْنَا الإنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إحْسٰنًا حَمَلَتْه اُمُّه کُرْهًا وَّوَضَعَتْهکُرْهًا﴾
”ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے، اس کی ماں نے اسے مشقت کے ساتھ حمل میں رکھا اور مشقت و تکلیف کے ساتھ اس کو جنا“ (الاحقاف:۱۵)
ان دونوں آیات میں اگرچہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اور اس کی تاکید کی گئی ہے، لیکن ماں کا ذکر جس انداز میں ہوا ہے اور حمل و ولادت کی تکلیف کا بطورِ خاص جس طرح ذکر کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا حق باپ سے کئی گنازیادہ ہے اور حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا :
(من أحق الناس بحسن صحابتی؟ قال: أمک، قال: ثم من؟ قال: ثم أمک، قال: ثم من؟ قال: ثم أمک، قال: ثم من؟ قال: ثم أبوک) (البخاري، الأدب، باب من أحق الناس بحسن الصحبة، ح: ۹۷۱ھ ومسلم، البر والصلة والأدب، باب بر الوالدين وأيهما أحق به، ح:۲ ۴۸ ھ و اللفظ لہ)
”میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں ۔ اس نے پوچھا: پھر کون ؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں ۔ اس نے پھر پوچھا: پھر کون؟ اپ نے فرمایا: تمہاری ماں ۔ اس نے کہا، پھر کون؟ آپ نے جواب میں فرمایا: پھر تمہارا باپ۔“
اس حدیث میں تین مرتبہ ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمانے کے بعد چوتھی مرتبہ باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ علما نے یہ لکھی ہے کہ
تین تکلیفیں ایسی ہیں جو صرف ماں برداشت کرتی ہے، بچے کے باپ کا اس میں حصہ نہیں ۔