کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 84
کوئی فرق نہیں ۔ جو بھی اپنی سیرت و کردار کو اس سانچے میں ڈھال لے گا، وہ اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہوگا اور جو اس ایمان و عمل صالح سے محروم ہوگا، وہ مستحق ِعذاب ہوگا۔ قطع نظر اس بات کے کہ اس کا تعلق صنف ِذکور سے ہے یا صنف ِاُناث سے۔
(3)اسلام سے قبل لڑکی کی ولادت کومنحوس سمجھاجاتاتھا حتیٰ کہ بعض درندہ صفت لڑکی کو زندہ درگور تک کردیتے تھے۔ زمانہٴ جاہلیت کے اس رویے کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے :
﴿وَإذَا بُشِّرَ أَحَدُهمْ بِالأُنْثٰی ظَلَّ وَجْهُه مُسْوَدًّا وَهُوْ کَظِيْمٌ، يَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءٍ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِکُه عَلٰی هُوْنٍ أَمْ يَدُسُّه فِيْ التُّرَابِ﴾(النحل: ۵۸،۵۹)
”جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی نوید سنائی جاتی ہے، تواس کا چہرہ (مارے غم اور افسوس کے) سیاہ ہوجاتا ہے اور دل میں وہ گھٹ رہا ہوتا ہے۔ وہ اس خبر کو برا سمجھتے ہوئے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس ذلت کو برداشت کرے یا اس کو مٹی میں دبا دے۔“
اسلام نے ان کے اس رویے کی سخت مذمت کی اور بچیوں کو اس طرح زندہ درگور کرنے سے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ اگر کسی نے اس فعل شنیع کا ارتکاب کیا تو اس سے بارگاہِ الٰہی میں باز پرس ہوگی : ﴿وَإذَا الْمَوْءُ دَةُ سُئِلَتْ، بِأيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ﴾ (التکویر:۸،۹)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لڑکے کے مقابلے میں لڑکی کو حقیر سمجھنے اور اسے زندہ درگور کرنے کی مذمت بیان فرمائی اور بچیوں کی پرورش اور ان کی تعلیم و تربیت کے فضائل بیان فرمائے۔ فرمایا:
(من کانت له أنثی فلم يَئدها ولم يُهنها ولم هوٴثر ولده عليها قال: يعنی الذکور،أدخله الله الجنة)
(ابی داود، ادب، باب فضل من عال یتامیٰ، ح:۵۱۴۶)
”جس کے ہاں لڑکی ہوئی اس نے اسے زندہ درگور نہیں کیا، نہ اسے حقیر سمجھا اور نہ لڑکے کو اس پر ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔“اور فرمایا:
(من عال ثلاث بنات، فأدّبهن وزوّجهن، وأحسن إليهن فله الجنة)
”جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی، ان کی تعلیم و تربیت کی، ان کی شادیاں کیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو اس کے لئے جنت ہے۔“
(ایضاً، ح:۵۱۴۷)
ایک اور روایت میں یہ الفاظ اس طرح ہیں :
(ثلاث أخوات أو ثلاث بنات، أو ابنتان أو أختان)(ایضاً،ح:۵۱۴۸)