کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 82
اسلام او رخواتین حافظ صلاح الدین یوسف طبقہ نسواں کے لئے اسلامی تعلیمات اسلام سے قبل عورت کی جو حالت تھی، محتاجِ وضاحت نہیں ۔ اہل علم اس سے پوری طرح باخبر ہیں ۔ اسلام نے اسے قعر مذلت سے نکالا اور عزت و احترام کے مقام پر فائز کیا۔ وہ وراثت سے محروم تھی، اسے وراثت میں حصے دار بنایا۔نکاح و طلاق میں اس کی پسندیدگی وناپسندیدگی کا قطعاً کوئی دخل نہ تھا، اسلام نے نکاح و طلاق میں اسے خاص حقوق عطا کئے۔ اسی طرح اسے تمام وہ تمدنی و معاشرتی حقوق عطا کئے جو مردوں کو حاصل تھے۔ عورت کی بابت اسلامی تعلیمات کا خلاصہ حسب ِذیل ہے : (1)بحیثیت ِانسان عورت بھی مرد ہی کی طرح انسانی شرف و احترام کی مستحق ہے۔ اس لحاظ سے مرد و عورت کے مابین کوئی فرق نہیں ۔ قرآنِ کریم نے اس حقیقت کو ﴿خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ﴾ (النساء:۱) ”تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا۔“ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(إنما النساء شقائق الرجال) ”عورتیں مردوں ہی کی شقیقہ (ہم جنس ) ہیں ۔“ (سنن أبو داؤد، الطھارة، باب في الرجال یجد البلة في منامہ : ۱/۱۶۲، ج:۲۳۶ مع شرحہ معالم السنن للخطابي طبع مصر) ’شقیقہ‘ کا مطلب ہے ”پیدائش اور طبیعت میں یکساں ہونا۔ “ چنانچہ امام خطابی لکھتے ہیں : أي نظائرهم وأمثالهم في الخلق والطبائع فکأنهن شققن من الرجال ”عورتیں پیدائش اور طبعی اوصاف میں مردوں ہی کی طرح ہیں ، گویا وہ مردوں ہی سے نکلی ہوئی ہیں ۔“(ایضاً) یوں اسلام نے عورت کے بارے میں اس تصور کو کہ عورت مرد کے مقابلے میں ذلیل وحقیر مخلوق ہے، باطل قرار دیا اور واضح الفاظ میں صراحت کردی کہ تکریم آدمیت اور شرفِ انسانیت کے لحاظ سے مرد و عورت میں فر ق روا نہیں رکھنا چاہئے۔