کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 81
جائیداد کے تنازعات کی دشمنیوں کی بنا پر ہوتے ہیں ۔ یہ فساد فی الارض زمیندارانہ، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے۔ یہ اس نظام کی ہلاکت خیزخرابیوں کو جڑ سے کاٹنے کے لئے قانون سازی کیوں نہیں کرتے؟ اس کی بجائے یہ اس درخت کی شاخوں کو کاٹنے پر آمادہ ہیں جس کی شاخوں پر یہ خود بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ان کے لئے ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اپنی عقل نارسا کو حکمت ِالٰہی کے تابع کردیں اور ان غیر اسلامی ترامیم سے دستبردار ہوکر دین و دنیا میں سرخرو ہوجائیں ۔ آخر میں ایک غلط فہمی کا ازالہ اظہارِ حقیقت کے طور پر عرض ہے کہ قانون قصاص ودیت جنرل ضیاء الحق مرحوم کی معنوی اولاد(Brain child) نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر کہاجارہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کئی مرتبہ توجہ دلانے کے باوجود جنرل موصوف وعدہ کرنے کے بعد بھی قصاص ودیت کے قانون کو اپنے ذاتی اور شخصی مفادات کی خاطر ملتوی کرتے رہے۔ اس لیے راقم الحروف نے ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس کی جانب سے گورنمنٹ آف پاکستان کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ ہمارے پینل میں ملک کے ممتاز اور معروف قانون دان راجہ ظفر الحق سابق وزیر قانون، جناب وہاب الخیری، ڈاکٹر ظفر علی راجا، چوہدری عبدالرحمن میاں شیر عالم سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کے علاوہ لاہورہائیکورٹ،کراچی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بار کے معزز اراکین شامل تھے۔معروف علما: مولانا عبد المالک، حافظ عبد الرحمن مدنی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی خصوصی معاونت ہمیں حاصل رہی۔سپریم کورٹ کے فل بنچ کے سربراہ جناب جسٹس محمد افضل ظلہ چیف جسٹس پاکستان تھے۔ جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ، جسٹس شفیع الرحمن اور علما جج جسٹس پیر محمد کرم شاہ اور جسٹس محمد تقی عثمانی ان کے ہم نشیں تھے۔ حکومت کی جانب سے جناب یحییٰ بختیار اٹارنی جنرل پاکستان اور ان کی ٹیم پیش ہوئی۔ اس مقدمہ کی سماعت کئی ہفتوں تک جاری رہی۔سپریم کورٹ کے مطالبہ پر ہم نے اپنا مسودۂ قانون قصاص ودیت عدالت میں داخل کیا جو سپریم کورٹ کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ اسلامی آئین وقانون کی کمیٹی جس میں ملک اور بیرونِ ملک کے ماہرین ِاسلامی قانون جن میں ڈاکٹر دوالیبی،جناب اے کے بروہی، جناب خالد اسحق اور معروف علما نے بھی اپنی سفارشات سپریم کورٹ کو پیش کر دیں جس پر سپریم کورٹ نے ۱۲/ربیع الاول (سال ۱۹۹۰ء) کو قانون قصاص ودیت کے موجودہ قانون کا اعلان کیا نوٹ: اسی مضمون کا خلاصہ نوائے وقت (۲۹ اور ۳۰ اکتوبر) میں بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔واضح رہے کہ اس مضمون میں پیش کردہ شرعی آرا مجلس التحقیق الاسلامی کے علمی تعاون سے پیش کی جارہی ہیں ۔ (قریشی)