کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 80
سمجھتے ہیں ۔ معلوم نہیں ہمارے دورِ جدیدکے ان خودساختہ فقیہانِ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو یہ استحقاق کہاں سے حاصل ہوگیا کہ وہ قرآن و سنت اور آئین پاکستان کے خلاف قانون سازی کریں ۔ یہ دین و آئین اور اسلام کے خلاف بغاوت ہے۔ کتابِ زندہ قرآن حکیم کی موجودگی میں ایسی ترامیم اپنی موت آپ ہی مر جائیں گی۔ ان حضرات کو کیا یہ علم نہیں کہ بعض لوگ جائیداد بچانے کی خاطر اپنی خواتین کی شادی معاذ اللہ قرآن سے کرکے ان کو زندہ درگور کردیتے ہیں ، اس بارے میں وہ کیوں قانون سازی نہیں کرتے؟ کیا انہیں یہ علم نہیں کہ بعض قتل غیرت ،کاروکاری، کالا کالی کے نام پر زمینوں اور چھٹی دلیل: ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ قصاص اس لئے مشروع کیا گیا ہے تاکہ قتل کی روک تھام ہوسکے اور باپ کسی ایسی چیز کا محتاج نہیں ہے جو اسے اس کے بیٹے کو قتل کرنے سے باز رکھے، کیونکہ باپ کی اپنے بیٹے سے شدید محبت و شفقت اس بات کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو قتل کرنے کا سوچتا بھی نہیں ہے۔ ساتویں دلیل: ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ باپ اپنے بیٹے کو وجود بخشنے کا سبب ہے ،اب وہ اس کے عدم اور اسے ختم کرنے کا سبب کیسے بن سکتا ہے او رباپ کی شفقت ایسا شبہ ہے جواس بات پردلالت کرتا ہے کہ باپ اپنے بیٹے کوقتل کرنے کا قصد نہیں کرسکتا، لہٰذا اس شبہ میں قصاص ساقط ہوجائے گا۔ اس رائے کے حاملین کے نزدیک ماں کا حکم بھی وہی ہے جو باپ کا ہے۔مالکیہ کے سوا تمام فقہا کا یہی موقف ہے: (احکام القرآن ابن العربی، ۱/۶۵) ٭ ضروری ہے کہ مالکیہ کے موقف کو تفصیل سے بیان کردیا جائے، تاکہ کوئی شبہ پیدا نہ ہو۔ ڈاکٹر وہبہ زحیلی رحمۃ اللہ علیہ نے مالکیہ کے موقف کی ان الفاظ میں وضاحت کی ہے کہ’’مالکیہ نے ایک حالت میں باپ پر قصاص کو واجب قرار دیاہے، وہ یہ کہ یہ بات ثابت ہوجائے کہ باپ نے اپنے بیٹے کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا او راس قسم کا کوئی شبہ نہ ہو کہ باپ نے بیٹے کو تادیباً مارا تھا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ اس کو لٹا کر ذبحہ کردے یا اس کا پیٹ پھاڑ دے یا اس کی انتڑیاں کاٹ دے تو اس صورت میں باپ کو قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ لیکن اگر اس نے بیٹے کو تادیباً مارا یاغصہ کی حالت میں مارا یا اس کو تلوار یا لاٹھی سے مارا اور اسے قتل کردیا تو اسے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا۔‘‘ (الفقہ الاسلامی وادلتہ ۶/۲۶۸) نیز ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ تمام فقہا کا موقف یہ ہے کہ باپ کو بیٹے کے قصاص میں قتل نہ کیا جائے، لیکن امام مالک رحمۃاللہ علیہ نے اس میں تفصیل بیان کی ہے، وہ یہ کہ اگر وہ اس کو تلوار سے مارتا ہے تو اس میں دونوں احتمال موجود ہیں کہ آیا اس نے اسے قتل کے ارادہ سے مارا ہے او ریہ احتمال بھی ہے کہ اس کی نیت قتل کی نہ ہو… لیکن اگر اس نے اسے باقاعدہ لٹا کر (ذبحہ کردیاہے) تویہ واضح دلیل ہے کہ وہ اسے واقعی قتل کرنا چاہتا تھا۔ (پہلی صورت میں باپ کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا ، دوسری صورت میں باپ کو قصاص میں قتل کیا جائے گا ) (احکام القرآن ۱/۶۵) تحقیق و تحریر: محمد اسلم صدیق