کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 79
شفقت کے رشتوں کا پوری طرح ادراک ہی نہیں ۔ انہوں نے اسے سانپ اور سنپولیوں کا رشتہ سمجھ لیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مادّہ سانپ اپنے بچوں کی پیدائش پر ہی حیوانی بھوک مٹانے کی خاطر خاصی تعداد میں اُن کو ہڑپ کرجاتی ہے۔ ماں باپ اور اولاد کو وہ شاید اسی طرح کی مخلوق
٭ ’’اس حدیث کو حجاز اور عراق کے اہل علم کے ہاں شہرت اور قبول عام کا درجہ حاصل ہے،لہٰذا اس حدیث کا مشہور و مستفیض ہونا اور اس حدیث پر علما کا عمل اسے اس بات سے مستغنی کر دیتا ہے کہ اس کی اسناد کی طرف رجوع کیا جائے ۔، بلکہ اس جیسی مشہور روایات کی اسناد کو بیان کرنا محض تکلف ہے۔ ‘‘(المغنی۷/۶۶۶)
تیسری دلیل: سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹے سے باپ کا قصاص تو لیتے تھے، لیکن باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیتے تھے۔ ‘‘
علماء حدیث نے اس روایت کو ضعیف قرار دیاہے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’سراقہ کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور اس کی سند صحیح نہیں ہے۔‘‘ امام البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ دیکھئے:(ضعیف سنن الترمذی۲۳۴، ارواء الغلیل ۷/۲۷۲ ، رقم ۲۲۱۴)
چوتھی دلیل:عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ قتادہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی تھی جو ان کی بکریاں چرایاکرتی تھی، ایک دن قتادہ نے اسے بکریاں چرانے کے لئے بھیجا تو ان کا بیٹا جو اس لونڈی کے بطن سے تھا، انہیں کہنے لگا:آپ کب تک میری ماں کو لونڈی بنائے رکھیں گے؟ اللہ کی قسم! آپ نے اسے جس قدر لونڈی بنانا تھا، بنالیا۔اب آپ اسے مزید لونڈی بناکر نہیں رکھ سکتے۔ یہ سن کر قتادہ رضی اللہ عنہ نے اس کے پہلو میں نیزا مارا ،جس سے وہ مرگیا۔ راوی کا بیان ہے کہ سراقہ بن مالک بن جعثم نے یہ بات حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے سامنے ذکر کی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما نے قتادہ سے فرمایا: جب تم آئندہ میرے پاس آؤ تو تمہارے پاس ایک سو چالیس یا کہا کہ ایک سو بیس اونٹ ہونے چاہئیں ، چنانچہ وہ مطلوبہ اونٹ لے کر حاضر ہو گئے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے تیس چار سالہ اور تیس پانچ سالہ اور چالیس چھ سے آٹھ سال کے درمیان عمر والے اونٹ اور اونٹنیاں لیں اور مقتول کے بھائیوں کو دے دیں اور ان میں باپ کو وارث نہیں بنایا اور اس کے بعد فرمایا:لولا أني سمعت رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ((لا یقاد والد بولد)) لقتلتک أو لضربت عنقک ’’اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ ’’باپ اگر بیٹے کو قتل کر دے تو اسے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا تو میں تجھے قتل کردیتا یا کہاکہ میں تیری گردن اڑا دیتا۔‘‘
(السنن الکبری للبیہقی۸/۷۲، الدارقطنی۳/۱۴۰)
پانچویں دلیل: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ((أنت ومالک لأبیک)) ’’تو خود اور تیرا مال تیرے باپ کے لئے ہے‘‘ بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ باپ سے بیٹے کے قتل کا قصاص نہ لیاجائے۔
چنانچہ دکتور دہہ زحیلی نے لکھا ہے کہ ’’اس حدیث سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ باپ سے بیٹے کا قصاص لیا جائے یا نہ لیا جائے، اور (یہ اُصول ہے)کہ شبہات سے قصاص ساقط ہوجاتا ہے۔‘‘ (الفقہ الاسلامی وادلتہ ۶/۲۶۸)