کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 78
الشرائع‘ کے حوالے دیے ہیں ۔ شق’سی‘ میں کہا گیا ہے کہ اولاد اپنے باپ، دادا کی ولی (وارثِ مقتول) ہونے کے اُصول کی بنا پر قصاص سے مستثنیٰ ہوگی۔٭ معلوم ہوتا ہے کہ ترمیمی بل کے مرتبین کو ماں ، باپ، بیٹا، بیٹی کے فطری پیار محبت اور ٭ باپ بیٹے کو قتل کرے تو ا س حوالہ سے اسلامی فقہ میں دو آرا پائی جاتی ہیں : پہلا قول :احناف، شافعیہ اورحنابلہ کے نزدیک اس صورت میں والد سے قصاص نہیں ،بلکہ اس کے مال سے دیت لی جائے گی۔ دیکھئے:( بدائع الصنائع ۷/۲۳۵، أحکام القرآن۱/۱۴۴، منہاج الطالبین از نووی ۴/۲۱۷) دوسرا قول: مالکیہ کا خیال یہ ہے کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ باپ نے اپنے بیٹے کو عمداً قتل کیا ہے تو اس صورت میں باپ سے قصاص لیا جائے گا۔ لیکن جہاں عمد اور غیر عمد دونوں کا احتمال ہو یعنی یہ واضح نہ ہو سکے کہ باپ نے قتل کی نیت سے اسے مارا تھا یا اس کا ارادہ قتل نہ تھا ، مثلاً اس نے بیٹے کو ادب سکھانے کے لئے یا زجر و توبیخ کے لئے مارااور اُسے قتل کر دیا تو ایسی صورت میں مالکیہ کے نزدیک والد کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا۔(المنتقی شرح الموطأ:۷/۱۰۵، الجامع الاحکام القرآن ازقرطبی: ۱/۲۵۱،احکام القرآن از ابن العربی ۱/۶۵) احناف، شافعیہ او رحنابلہ نے اپنے مذہب کی تائید کے لئے متعدد دلائل پیش کئے ہیں ، ہم ان میں اہم دلائل کا تذکرہ کئے دیتے ہیں ۔ ان کی اہم ترین دلیل یہ حدیث ہے : پہلی دلیل: جامع الترمذی اور سنن الدارمی میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا تقام الحدود في المساجد ولا یقاد بالولد الوالد)) (مشکوٰۃ المصابیح :۲/۲۶۳) ’’مساجدمیں حدود کا نفاذ نہ کیاجائے اور نہ ہی باپ سے بیٹے کا قصاص لیا جائے۔‘‘ امام ناصرالدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ۔ دیکھئے : (صحیح ترمذی : ۱۱۳۰ ،صحیح ابن ماجہ ۲۵۹۹) دوسری دلیل: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((لا یقاد الوالدبالولد)) ’’باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔‘‘ امام ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ لعیہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے:(دیکھئے صحیح ترمذی، رقم ۱۱۲۹ ، صحیح ابن ماجہ:۲۶۶۲) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس مضامین کی احادیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’اہل علم کا یہی عمل ہے کہ اگر باپ اپنے بیٹے کو قتل کردے تو اسے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا، اسی طرح اگر وہ اس پر تہمت لگائے تو اس پر حد قائم نہیں کی جائے گی۔‘‘ دکتور وہبہ زحیلی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں :’’امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ، نسائی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے بیان کیاہے اور اس کی متعدد اسانید میں سے بعض پر جرح کی گئی ہے او رامام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ او رامام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بعض طرق کو صحیح قرار دیا ہے ، نیز بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم ؛ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ اور عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے بھی یہ روایت مروی ہے۔‘‘ (الفقہ الاسلامی وادلتہ،۶/۲۶۷ ( طبع دارالفکر) حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں :