کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 76
سلب کرلیا ہے۔ اُنہوں نے یہ کارنامہ اس غرض سے سرانجام دیا ہے کہ اس دفعہ۳۳۸ ’ایف‘ کی موجودگی میں عدالتیں قرآن اور سنت کے جائز قانون کو ناجائز اور قابل راضی نامہ جرائم کو ناقابل راضی نہیں بناسکتیں ۔ شاید اُنہیں یہ یاد نہیں رہا کہ اگر اس دفعہ کوتعزیراتِ پاکستان سے نکال بھی دیا جائے اور اسے منسوخ بھی کردیا جائے تو پھر وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکلز ۲، ۲’اے‘، ۳۱، ۲۲۷ اور ۲۰۳ ’ڈی‘ جوسارے دستور کو اپنی آ ہنی گرفت میں لئے ہوئے ہیں کو کہاں لے جائیں گے۔ آرٹیکل ۲کی رو سے ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔آرٹیکل ۲ ’اے‘ کی رو سے ریاست اور حکومت مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن وسنت پرعمل کرانے کی پابند ہے۔ آرٹیکل ۳۱ کی رو سے ہر مسلمان کو اسلامی طرزِحیات اختیار کرنا ہوگا۔ آرٹیکل ۲۰۳ ’ڈی‘نے فیڈرل شریعت کورٹ کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ ہر اس قانون کو جو قرآن اور سنت کے خلاف ہو، کالعدم قرار دے۔ پھر آرٹیکل ۲۲۷سے بچ نکلنے کی کیا صورت ہوگی جس کی رو سے موجودہ تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے گا اور کوئی قانون پاکستان میں قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا۔ اس لئے تعزیراتِ پاکستان کے قانونِ قصاص ودیت میں ترمیمات کا یہ مجوزہ بل آئین کے اسلامی آرٹیکلز کے خلاف اقدامِ قتل سے کچھ کم نہیں ۔ دراصل مجوزہ ترمیمی بل کے مرتبین قانونِ الٰہی کے بجائے اپنے خود ساختہ قوانین کو قوم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ حضرات نام نہاد پارلیمنٹ کے ذریعہ اسلامی حدود اور آئینی پابندیوں کو توڑتے ہوئے سیکولر نظامِ حکومت کی حاکمیت ِاعلیٰ کی مسند اقتدار تک پہنچنے کیلئے راہ ہموار کررہے ہیں لیکن مسلمانانِ پاکستان اور خود پارلیمنٹ کے اندر پیروانِ اسلام کی بھاری اکثریت ایسی اقلیتی کوششوں کو ناکام بنا دے گی۔ والد سے قصاص کا مسئلہ دفعہ ۳۰۶ کی شق ’بی اور سی‘ کو ہم نے بوجوہ موٴخر کردیا تھا ۔ان شقوں کو ترمیمی بل میں دفعہ ۳۰۰ ’اے‘ کے ذریعہ ختم کیا جارہا ہے۔ موجودہ دفعہ ۳۰۶کی شق ’بی‘میں کہا گیا ہے کہ اگر والد اپنی اولاد یعنی بیٹا، بیٹی ،