کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 74
ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوگا کہ قتل غیرت کے نام پر دفعہ ۳۰۰ (تعزیراتِ پاکستان) میں وضاحتی شق داخل کرنے کے پس پردہ عزائم کیا ہیں ؟
دفعہ ۳۰۰ تعزیراتِ پاکستان کی مذکورہ وضاحت کو بنیاد بنا کر دفعہ۳۰۰ ’اے‘ کا اضافہ تجویز کیاگیا ہے جوحسب ِذیل ہے :
دفعہ ۳۰۰ ’اے‘ تعزیراتِ پاکستان کے باب ۱۶ (جو اسلامی قانونِ قتل و قصاص اور دیت سے متعلق ہے) کے باوجود اور کسی بھی موجودہ نافذ العمل قانون کے باوصف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۳۰۶ کی کلاز ’بی‘ اور ’سی‘ اور دفعہ ۳۰۷ کی کلاز ’بی‘ اور دفعہ ۳۱۰ اور ۳۱۱ کا اطلاق بھی دفعہ ۳۰۰ کی اضافہ شدہ وضاحت میں بیان کئے گئے قتل کی ان تمام صورتوں پر نہیں ہوگا جو قتل غیرت کے نام پر کئے جاتے ہیں ۔ موجودہ دفعہ ۳۰۶ کو ہم فی الوقت موٴخر کرتے ہیں ۔ اس سے پہلے ہم موجودہ دفعہ ۳۰۷کو لیتے ہیں جس میں کہا گیا ہے :
۳۰۷، بی:’ولی‘(وارثِ مقتول) عدالت کی تسلی اور اطمینان پر بغیر کسی دباوٴ کے رضاکارانہ طور پر دفعہ ۳۰۹ اور دفعہ ۳۱۰ کے مطا بق اپنے مطالبہ قصاص سے دست بردار ہوسکتا ہے۔
۳۰۷، سی: جب قصاص کا حق مقتول کے ولی الدم (وارث) کی موت پر مجرم کو بطورِ’ولی‘ حاصل ہوجائے یاجس کو ولی کی موجودگی میں قصاص کا حق نہ ہو تو ایسا شخص بھی قصاص سے مستثنیٰ ہوگا۔
دفعہ۳۰۹ عفو (معافی) سے متعلق ہے۔ اس دفعہ کی رو سے عاقل اور بالغ ولی کو کسی وقت بھی بغیر کسی دیت اور معاوضہ کے قاتل کی جان بخشی کا حق حاصل ہے۔ اس دفعہ میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ جب مقتول کا کوئی ولی وارث نہ ہو تو حکومت اس کی ولی بن جائے گی یا پھر جب ولی نابالغ اور فاتر العقل ہو تو ایسی صورت میں ان کو قصاص کا حق حاصل نہ ہوگا۔ وارثانِ مقتول میں سے کسی ایک کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ قاتل کو معاف کردے۔ اگر دوسرے وارث معاف نہ کریں تو وہ خون بہا وصول کرنے کے حق دار ہوں گے۔ اس سلسلہ میں مزید تفصیلات بیان کردی گئی ہیں ۔
دفعہ ۳۰۲ کی مجوزہ شق ’ڈی‘ کے اضافہ میں بتلایا گیا ہے کہ غیرت کے تمام قتل جو دفعہ ۳۰۰