کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 73
”قصاص کے معاملے میں مقتول کے اولیا (وارثوں ) کی مرضی کو اسلام نے جو اہمیت دی ہے وہ مختلف پہلووٴں سے نہایت حکیمانہ ہے۔ قاتل کی جان پر مقتول کے وارثوں کو براہِ راست اختیار مل جانے سے ایک تو بہت بڑے زخم کے اندمال کی شکل پیدا ہوجاتی ہے اور دوسرے اگر اس صورت میں نرم رویہ اختیار کریں تو قاتل اور اس کے خاندان پر اس کا براہِ راست احسان ہوتا ہے جس سے نہایت مفید نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔“ ( ج۱/ ص۴۳۴) اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ممتاز نومسلم سکالر علامہ محمد اسد لکھتے ہیں : "The expression "if something is remitted to a quilty person may refer either to the establishment of the categories of culpable homicide or man slaughter in which case no capital punishment is to be exacted and retribution is to be made by the payment of indemnity called Diyal of the relatives to victim" (The Massage of the Aur'an, p. 36,37) مذکورۃ الصدر آیت قرآنی کے الفاظ اتنے واضح اور غیر مبہم ہیں کہ عفو اور دیت کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ مستند مفسرین اور قدیم و جدید علوم کے ماہرین نے قانونِ عفو اور صلح کے بارے میں اس آیت کی جوتشریحات کی ہیں ، وہ قرآنِ حکیم کے منشا کے عین مطابق ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس آیت میں خطاب مسلمانوں سے کیا جارہا ہے اور انہیں بتلایا گیاہے کہ قتل کے بارے میں یہ تخفیف اور رعایت رسولِ رحمت کی اُمت کو دی گئی ہے جو ان کے لئے باعث ِرحمت ہے۔ لیکن یہ رعایت تورات میں بنی اسرائیل کو نہیں دی گئی تھی۔ غالباً ان کے ظلم اور شقاوت کی وجہ سے انہیں اس رعایت ِخاص سے محروم کردیا گیا تھا۔ اس فرمانِ خداوندی اور ان مراعاتِ خصوصی کے باوجود فوجداری ترمیمی ایکٹ سال ۲۰۰۴ کے ذریعہ موجودہ قانونِ قصاص و دیت میں جو ترامیم تجویز کی گئی ہیں ، ہم یہاں ان کاتجزیہ پیش کریں گے جس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ ان مرتبین نے اللہ کے قانون میں کس طرح ترمیم کی کوشش کی ہیں ۔ جس سے ان کا مقصد اسلام کی بجائے مغربی تہذیب کورواج دینا ہے۔ یہ ذ ہنی غلامی، جسمانی غلامی کی ترقی یافتہ شکل ہے جو آدمی کو غلامی میں پختہ تر کردیتی