کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 72
کے دو بیٹے ہوں اور ان دونوں نے اپنا حق (قصاص) معاف کردیا تو قاتل پر کوئی مطالبہ نہیں رہا۔ اگر پوری معافی نہ ہو مثلاً دو بیٹوں میں سے ایک نے معاف کیا، دوسرے نے معاف نہ کیا تو قاتل سزاے قصاص سے تو بری ہوگیا، لیکن معاف نہ کرنے والے کو نصف دیت (خون بہا) دلایا جائے گا۔“ (معارف القرآن: ج۱/ ص۴۳۶،۴۳۷)
جس طرح ناتمام معافی پر مال واجب ہوجاتا ہے، اسی طرح باہم کسی قدر مال پر مصالحت ہوجائے تب بھی قصاص ساقط ہوکر مال واجب ہوجاتا ہے۔ (ایضاً)
اسی آیت کی تفسیر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں :
”(معافی میں ) بھائی کا لفظ فرماکر نہایت لطیف طریقے سے نرمی کی سفارش بھی کردی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے اور دوسرے شخص کے درمیان باپ مارے کا بیرہی سہی، مگر ہے تو وہ تمہارا انسانی بھائی لہٰذا اگر اپنے خطا کار بھائی کے مقابلے میں انتقام کے غصے کو پی جاوٴ تو یہ تمہاری انسانیت کے زیادہ شایان شان ہے۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلامی قانونِ تعزیرات میں قتل کا معاملہ قابل راضی نامہ ہے۔ مقتول کے وارثوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ قاتل کو معاف کردیں ۔ اس صورت میں عدالت کے لئے یہ جائز نہیں کہ قاتل کی جان لینے پر ہی اصرار کرے۔البتہ جیسا کہ بعدکی آیت میں ارشاد ہوا، معافی کی صورت میں قاتل کو خون بہا اداکرنا ہوگا۔“ (تفہیم القرآن:۱ /۱۳۸،۱۳۹)
سید قطب شہید اپنی تفسیر ’فی ظلال القرآن‘ میں اسی آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں :
”اللہ تعالیٰ نے اس اہم ترین معاملے میں دیت کی گنجائش رکھ کر مسلمانوں پر تخفیف اور رحمت کی ہے۔ اس لئے اُنہیں توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ اسے اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم سمجھیں ۔ یہ اُمت ِمسلمہ کے ساتھ ایک رعایت ہے جو محض اس لئے کی گئی ہے کہ اگر فریقین کے درمیان راضی نامہ ہوجائے اور دل ایک دوسرے سے صاف ہوجائیں تو اس صورت میں نہ صرف رنجشیں مٹ جائیں گی بلکہ ایک شخص کی زندگی بھی بچ جائے گی۔
قانونِ قصاص و دیت کے نظام سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کس قدر وسیع نقطہ نظر کا حامل ہے اور قانون سازی کے وقت نفس انسانی کے محرکات پر اس کی پوری نظر ہے۔“(تفسیر ’فی ظلال القرآن‘ مترجم: ج۱/ ص۳۴۶)
اب اس ’آیت ِعفو‘ کے بارے میں مولانا امین احسن اصلاحی جو متجددین کے امام سمجھے جاتے ہیں ، کی تفسیر ’تدبر قرآن‘ بھی دیکھئے۔ لکھتے ہیں :