کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 71
ایسا کرے تو تم پھر ایسا ہی کرو۔
قانون فوجداری ترمیمی ایکٹ سال ۲۰۰۴ء کی دفعہ ۲ کے ذریعہ موجودہ دفعہ ۳۰۰ تعزیراتِ پاکستان میں وضاحتی شق کا اضافہ کرتے ہوئے قتل غیرت کے نام پر قتل کی جتنی صورتیں بیان کی گئی ہیں ، ان سب کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ یہ ’قتل عمد‘ ہے اور مختلف اسلامی ممالک کے قوانین یا فقہا کی آرا کا سہارا لے کر اس کو قتل عمد قرار نہ دینا درست رویہ نہیں ۔
مجوزہ ترمیم میں غلط موقف
لیکن ترمیمی بل کے مسودہ نویسیوں نے بل مذکورہ کی دفعات ۳،۴ اور ۷ کی رُو سے موجودہ دفعاتِ تعزیرات ۳۰۰،۳۰۲ اور۳۰۸’ای‘ میں جو ترامیم کی ہیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترامیم کے مرتبین یا تو قرآن کی تعلیمات سے قطعی طور پر ناواقف ہیں یا پھر انہیں احکامِ الٰہی کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔ کیونکہ انہوں نے ان ترامیم سے مقتول کے وارثوں کا قاتل کو معاف کردینے یا اس سے صلح اور راضی نامہ کرنے کا قرآنی حق بھی ختم کردیا ہے۔ حالانکہ قرآنِ حکیم کی اس آیت ِکریمہ میں صاف طور پر بتلایاگیا ہے :
﴿ يأيهالَّذِينَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَيکُمُ الْقِصَاصُ فِيْ القَتْلیٰ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأنْثٰی بِالأنْثیٰ … الآية﴾ (البقرۃ: ۱۷۸)
”اے ایمان والو! تم پر (قانون) قصاص فرض کیا جاتا ہے۔ مقتولین (قتل عمد) کے عوض میں اور (یعنی ہر) آزاد آدمی (قتل کیا جائے ہر دوسرے )آزاد آدمی کے عوض میں اور (اسی طرح ہر )غلام (دوسرے ہر) غلام کے عوض میں اور (اسی طرح ہر) عورت (دوسری ہر) عورت کے عوض میں ۔ گویا قاتلین بڑے درجہ کے اور مقتولین چھوٹے درجہ کے ہوں ، تب بھی سب سے برابر قصاص لیا جائے گا ، یعنی قاتل کو سزا میں قتل کیا جائے گا۔ ہاں جس قاتل کو اس کے فریق مقدمہ کی طرف سے کچھ معافی ہوجائے (مگر پوری معاف نہ ہو) تو (اس کی وجہ سے وہ سزاے قتل سے تو بری ہوگیا) لیکن دیت یعنی خوں بہا کے طور پر ایک معین مقدار سے مال بذمہ قاتل ہوجائے گا۔ (قانون عفو و دیت) تمہارے پروردگار کی طرف سے سزا میں تخفیف اور رحمت ہے۔“(ترجمہ از معارف القرآن: ج۱/ ص۴۳۵)
مولانا مفتی محمد شفیع اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”اگر قتل عمد میں قاتل کو پوری معافی دے دی جائے، مثلاً مقتول کے وارث صرف اس