کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 70
Circumstances) میں بدکاری کی سزا میں تخفیف کی جاتی ہے۔ اسی طرح شام، لبنان، تیونس اور مراکش میں بھی ناجائز ہم بستری(Unlawful Bed) پر قتل کی سزا میں کمی کی جاتی ہے مگر مکمل طور پر بدکاری کرتے دیکھ لے تو مجرم پر قتل کی سزا لاگو ہوتی ہے۔ البتہ اُردن اور ترکی کے پینل کوڈ میں اگر کوئی شخص اپنی بیوی یا محرمات میں کسی کو حالت بدکاری میں دیکھے اور ان میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو قتل کردے تو وہ سزا سے مستثنیٰ سمجھا جائے گا۔ ترکی کو یورپی یونین میں داخلہ کی ایک رکاوٹ بدکاری کے قانون کی موجودگی بھی ہے۔ ٭ اسلامی شریعت میں ایک نکتہ نظر اس کے برخلاف بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نامور شاگرد ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ جو اُصولِ قانون کے ماہرین میں سے ہیں ، حدیث سعد رضی اللہ عنہ کی تشریح ایک اور انداز سے کرتے ہیں : ” اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سعد رضی اللہ عنہ کے قتل کو ناپسند کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیرت کو اپنی طرف پھر حق تعالیٰ کی طرف منسوب نہ فرماتے بلکہ ارشاد فرماتے: ”اگر تو نے اس کو قتل کیا تو تجھ کو بھی قتل کردیا جائے گا۔“ اس لئے وہ قتل غیرت کو ناجائز نہیں سمجھتے ہیں ۔ایسے ہی بعض علماحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث من رأیٰ منکم منکرًا فلیغیرہ بیدہ ”تم سے جو کوئی برائی کو دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ (یعنی اپنی قوت) سے روکے۔“ اور قرآن کریم کی آیت ﴿فَمَنِ اعْتَدَیٰ عَلَيْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيه بمِثْلِ مَا اعْتَدَیٰ عَلَيکُمْ ﴾ ”جو تم پر زیادتی کا مرتکب ہو تو بھی اس کا بدلہ دو جیسی اُس نے تم زیادتی کی ہے۔“کی بنا پر قتل غیرت کو جائز سمجھتے ہیں ۔ اس کے ثبوت میں وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ پیش کرتے ہیں جب ایک شخص خون آلود تلوار کے ساتھ دوڑتا ہوا خلیفہ اسلام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور آکر ان کے ساتھ کھانے میں شامل ہوگیا۔ اس کے پیچھے چند لوگوں کی ایک جماعت آئی اور انہوں نے شخص مذکور سے قصاص کامطالبہ کیا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے اس بارے میں دریافت فرمایا تو اس نے کہا: اے امیر المومنین! بلا شبہ میں نے اپنی بیوی کے دونوں رانوں کے درمیان تلوار ماری اگر ان کے درمیان کوئی تھا تو یقینا وہ بھی قتل ہوگیا، جس کی قاتل کے مخالف گروہ نے تصدیق کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے تلوار لی اور اسے لہراتے ہوئے قاتل سے کہا: اگر کوئی دوبارہ