کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 69
قانون وقضا محمد اسمٰعیل قریشی
سینئر ایڈوکیٹ سپریم کورٹ
آئین میں مجوزہ نئی حکومتی ترامیم ؟
قتل غیرت اور اس پر مختلف موقف
اسلام نے جرمِ بدکاری کی سزا ’موت‘ (بطورِ حد:سنگسار) مقرر کردی ہے، اس کے لئے چار گواہوں کی شہادت کو لازمی قرار دیا گیا ہے جو عدالت میں پیش ہوکر اس بارے میں شہادت دیں گے۔ اس لئے کسی شخص کو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کرملزم کوقتل کرنے کی اجازت نہیں ۔ اگر شوہر اپنی بیوی پربدکاری کا الزام لگائے تو اس کو بھی اسلام کے قانونِ شہادت کے مطابق چار گواہ پیش کرنا ہوں گے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ عدالت سے رجوع کرے گا جس پر قرآن کے قانونِ لعان کے ذریعہ قاضی / جج میاں بیوی کے درمیان تفریق کروا دے گا اور ان کو ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے سے جدا کردیا جائے گا۔
جمہور علما کا بھی یہی موقف ہے کہ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر مرد یا عورت یا دونوں کو قتل کردے۔ اس لئے جہاں تک دفعہ ۳۰۰ تعزیرات کے ترمیمی بل کی توضیح کا تعلق ہے، ان میں کاروکاری، کالاکالی، سیہ کاری، غیرت اور عزت وغیرہ کے نام پر جو قتل کیا جائے گا وہ ’قتل عمد‘ ہی ہوگا اور اس کی سزا ’موت٭ ‘ ہی ہوگی۔
بعض مسلمان ملکوں مثلاً مصر، تیونس، لیبیا اور کویت میں کمی سزا کے حالات(Mitigating
٭ قتل غیرت کے ’قتل بالارادہ‘ ہونے کے بارے میں توکوئی شبہ نہیں ،البتہ اس پر قتل عمد کی سزا لاگو کرنا محل نظر ہے کیونکہ یہ ایک جرم کا ردّ ِعمل ہے۔ اگر قاتل وہ جرم (یعنی بدکاری کا وقوعہ) ثابت کردے تو اس کو قانون ہاتھ میں لینے کی سزا دی جائے گی اور اگر وہ ثابت نہ کرسکے تو اُسے قصاصاً قتل کیا جائے گا۔مزید برآں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل غیرت سے منع کیا ہے، گویا آپ کے فرمان کے بعد یہ ایک جرم ہے، لیکن آپ نے اس کی سزا قتل عمد کی سزا تو قرار نہیں دی، اس بارے میں عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہے۔ ادارہ