کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 68
شروع کردے۔ قومی اسمبلی میں جو ترمیم ان دنوں پاس ہوئی ہے، اس سے تو یہ نقشہ اُبھرتا ہے کہ عشق و فجور اور بے راہ روی اختیار کرنے والے تو معصوم تصور ہوں اور ان کو روکنے والے کسی تفصیل میں جائے بغیر سیدھا قانون کی گرفت میں ۔ اس قانون کا طرفہ تماشا دیکھئے کہ زنا کا کیس ایس پی (اور وہ بھی عدالت کی اجازت سے) ہی درج کرسکے گا گویا زنا کو تحفظ اس طرح عطا کیا گیا ہے کہ جرم کا اندراج ناممکن بنا دیا گیا، دوسری طرف عوام الناس اور خاندان کے مردوں کو قانون کی دھمکی کے ذریعے اس سے منع کرنے کی قانون سازی ہے۔ اس سے پاکستانی معاشرہ کیسی صورتِ حال سے دوچار ہوگا اور حالات ہمیں کدھرلے جائیں گے، اس کا اندازہ ہر ذی شعور کرسکتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ جس المیہ سے اس وقت دوچار ہے وہ یہ ہے کہ تمام ذرائع ابلاغ عشق ومحبت کو ایک مقدس قدر کے طور پر پیش کر رہے ہیں ،تعلیمی ادارے اس تصور کی تجربہ گاہ اور عدالتیں انسانی آزادی کے نام پر اس کی ضامن ومحافظ ہیں ۔ سارا زور آخر کار غیرت کے نام پر جرائم میں نکلتا ہے، جس سے تھوڑا بہت خوف باقی ہے۔مقننہ این جی اوزکے ساتھ مل کر اس آخری دیوار کو بھی گرانا چاہتی ہیں جس کے بعد معاشرتی سطح پر یا خاندان کے افراد کی طرف سے رکاوٹ کا کوئی اِمکان باقی نہ رہے اور جوایسا کرے وہ المناک سزا کا مستحق کیونکہ یہ اس کا جرم ہے جو ان آزاد رو مرد وزن کے عشق ومحبت میں فتور ڈالتاہے۔ غیرت کے نام پران جرائم کو صرف قانونی نقطہ نظر سے روکنے یا جائزہ لینے کی بجائے اس سے پہلے ان تمام مراحل کو کنٹرول کرنا ضروری ہے اور معاشرے کے اس نازک موڑ پر ہمیں یہی فیصلہ کرنا ہے۔ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب اور اس کے لوازم اور نتائج وعواقب کے لیے خودکو تیار کرنا۔معاشرے میں ہر طرف اس دو رخی سے المیے جنم لے رہے ہیں ۔ پارکوں ، کلبوں میں دن رات محبت کے نام پر عصمت دری کا جرم ہو رہا ہے اور گلیوں محلوں میں قتل وغارت۔ عدالتیں ایسے مسائل سے بھری پڑی ہیں اور حکومتیں ان کی روک تھام کی بجائے آخری بندھن بھی توڑ دینا چاہتی ہیں ۔ ایسی صورتحال میں ہمیں ٹھنڈے دل ودماغ سے ان مسائل پر سوچنا چاہئے اور معاشرے کو درست سمت میں لے جانے کے لئے مناسب اور موزوں قانون سازی اور عوامی رویے اپنانے چاہئیں ۔ نہ قانون شکنی اس مسئلہ کا حل ہے اور نہ غیرت جیسے جائز جذبہ سے دستبرداری نبی کریم کے فرامین سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے ۔ وما علينا إلا البلاغ