کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 67
حفاظت کے نکتہ نظر سے یا نہی عن المنکرکی تعمیل میں ۔اگر اسلام میں فوری اشتعال کی کوئی اہمیت ہوتی تو اس بنا پر بیوی کی نارضامندی کے باوجود اسے قتل کرنیوالے پر قصاص عائد نہ کیا جاتا۔
ان تمام اسلامی و قانونی تشریحات اور عالمی قوانین وفیصلہ جات کے باوجود صرف مادر پدر آزاد تہذیب کے فروغ کے لئے غیرت کے مجرم کو نشانِ عبرت بنادینے کی خواہش اور اس کے لئے سنگین ترین سزا پر مبنی قانون سازی کا مطالبہ این جی اوز کا عجب رویہ ہے جس میں ہماری قبائلی روایات کی اصلاح سے بڑھ کر مغربی تہذیب کا لپکا اور آزادانہ جنسی معاشرہ کے قیام کی خواہش کارفرما ہے۔ ان مغرب زدہ خواتین کے نزدیک نہ صرف یہ کہ نکاح ایک ناپسندیدہ بندھن ہے بلکہ یہ اسے قید ِغلامی کی یادگار قرار دیتی ہیں ۔نکاح کے ادارہ کی جگہ صرف باہمی رضامندی کو دے کر یہ لوگ ایک آزاد رو معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں ۔جوکوئی اس حکمت کو نظر انداز کرکے ان کے بظاہر خوبصورت موقف کی تائید کرتا ہے، اسے اس کے مضمرات پر ضرور غور کرلینا چاہئے۔ یہ خواتین نہ صرف یہ کہ نکاح سے قبل جنسی تعلقات کوعورت کا حق قرار دیتی ہیں ، بلکہ طوائف کو جنسی کارکن قرار دلوانے کا بھی مطالبہ رکھتی ہیں ۔ ان کے نزدیک زنا کے جائز ہونے کی واحدشرط نکاح سے قبل لڑکا لڑکی کی وقتی رضامندی ہے۔ ایسے ہی نکاح کے بعد مرد کے ساتھ بیوی کی وقتی نارضامندی کے سبب ہونے والے ازواجی تعلق کو یہ خواتین ’ازدواجی زنا بالجبر‘ سے تعبیر کرکے اس کے لئے بھی سنگین سزا کا مطالبہ کرتی ہیں ۔ گویا نکاح کے مقدس بندھن کا مقام اُنہوں نے باہمی رضامندی کوہی دے رکھا ہے۔
غیرت کے نام پر ہونے والے جرائم سے اُنہیں خوف اسی لئے آتا ہے کہ اس سے اس تہذیب کو خطرہ درپیش ہے جس میں جنسی بے راہ روی کوئی ناپسندیدہ فعل نہیں بلکہ خالصتاً عورت کا حق ہے۔حکومت کوبھی بیجنگ پلس فائیو کانفرنس پر دستخط کے ذریعے یو این او کے زیرنگرانی اسی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔عدالت اورمقننہ کوچاہئے کہ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح کثیر المقاصد جملوں کے ذریعے ایک طرف قتل وغارت کا دروازہ بند کیا ہے، دوسری طرف غیرت کے جرائم کی بھی حوصلہ شکنی کی ہے، ایسے ہی بعد میں فقہا نے اس جرم کی سزا کو انصاف کی میزان میں پورا پورا تول کرہردوفریق کو جائز حق دیاہے، ان اسلامی روایات کی پاسداری کریں اور ایسی کسی بھی قانون سازی سے گریز کیا جائے جس کا نتیجہ آخر کار ملک سے غیرت کے خاتمہ کی صورت میں نکلے،بے راہ روی کا شکار مرد وعورت عوامی غیظ وغضب سے بے پرواہ ہوکر جنسی عیاشی کریں اور اس ملک خدادا میں بھی مغربی تہذیب اپنا ننگا ناچ