کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 66
شخص جو اپنی بیوی یا محرمات میں سے کسی ایک کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ بدکاری (زنا) کرتے ہوئے اچانک پکڑ لے اور وہ ایک یا دونوں کو قتل، زخمی یا مجروح کر دے تو وہ ہر طرح کی سزا سے مستثنیٰ ہے۔ “ ایسے ہی (ii)کوئی شخص جو اپنی بیوی یا ماں ، دادی میں سے کسی ایک کو یا پھر بیٹی پوتی جیسے وارثین میں سے کسی ایک کو یا اپنی بہن کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ بستر میں ناجائز حالت میں اچانک پکڑے اور اسے قتل، مضروب یا مجروح کردے تو وہ سزا میں کمی کی رعایت (فائدہ) کا مستحق ہوگا۔“ (Islam and Feminism, By Lama Abu Odeh) بعض مسلم ماہرین قانون نے مندرجہ بالا آرٹیکل کے عمل درآمد کے لئے تین شرائط کی تکمیل کو بھی ضروری قرار دیا ہے مثلاً (i) ملزم کا مقتولہ سے رشتہ (خاوند، بھائی، بیٹا ) (ii) عورت کا بدکاری کرتے ہوئے اچانک رنگے ہاتھوں پکڑا جانا۔ (iii) قتل کا اقدام بدکاری دیکھنے کے فوراً بعد اور فوری اشتعال کا نتیجہ ہو۔ پاکستان کے مجموعہ تعزیرات کے مطابق بھی عزت کے قتل اور فوری اشتعال کے نتیجہ میں کئے جانے والے قتل کو ’قتل عمد‘ کی بجائے ’قتل خطا‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ 1860ء سے لے کر اب تک ان قوانین کی تعبیر و تشریح او راطلاق میں تسلسل پایا جاتا ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے سینکڑوں فیصلہ جات ریکارڈ پر ہیں جس میں غیرت کے قتل کو ’قتل عمد‘ نہیں سمجھا گیا۔ ان فیصلہ جات میں سے ایک فیصلہ جو 26 /نومبر 1997ء کے اخبارات میں رپورٹ ہوا … “ پھر مصنف نے پاکستان ،مصر، امریکہ اور یورپی عدالتوں کے متعدد ایسے فیصلوں کی نشاندہی کی ہے جس میں فوری اشتعال کے تحت یا بے قابو ہونے کے سبب مجرم کو رعایت دی گئی ہے۔ تفصیلات کے شائقین اصل مضمون کا مطالعہ کریں ۔ البتہ جیسا کہ شرعی موقف کی وضاحت میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ اسلام صرف ثبوتِ واقعہ سے بحث کرتا ہے۔ جدید قانون کا یہ تصور کہ یہ حق صرف بھائی، باپ اور شوہر کو دیا جانا چاہئے، کیونکہ ایسا غیرت بھرا اقدام انہی قریبی رشتہ داروں سے ممکن ہے اور وہی اس میں رعایت کے مستحق ہیں ، لیکن اسلام میں ایسے اقدامات ملی غیرت کے نام پر بھی وجود میں آئے اور ان کا اعتبار کیا گیا جیسا کہ بنو قینقاع سے چھڑ جانے والی جنگ کے پس منظر میں مسلمان کا یہودی کو قتل کرنا، نبی کریم کا فیصلہ نہ ماننے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہودی کو قتل کرنا اور جہاد پر جانے والے مجاہد کی بیوی سے زنا کرنیوالے یہودی کو مسلمان کے قتل کرنے کا واقعہ ( دیکھئے صفحہ نمبر 48،50) ایسے ہی اسلام فوری اشتعال کے سبب اس جرم میں رعایت دینے کی بجائے اس موقع پر اس جرم کو روکنے کے نقطہ نظر سے بحث کرتا ہے چاہے وہ دفاع کی قبیل سے ہو ،اپنی عزت کی