کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 65
انہیں پابند کیا، آپ کا یہ حکم حکمت ومصلحت اور اُمت کے لئے رحمت واحسان سے بھرپور ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی شدید غیرت کے باوجود اپنے بندوں کی مصلحتوں کو خوب سمجھتا ہے۔ اس کلام کے دونوں مفہوم ہی مراد ہیں ، اور دونوں ہی مناسب ِحال ہیں ۔“
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں ایک اور قانونی نکتہ پیش کیا ہے کہ قاتل کا یہ فعل اللہ اور انسان کے باہمی تعلق کے پس منظر میں بریٴ الذمہ ہے،لیکن انسانوں کے اُمور کی مصلحت اور شریعت کے ظاہری پہلو کی رو سے اس کو سزا دلوانے کے قانونی تقاضے پورے کرنا ضروری ہیں ۔ اس لحاظ سے حدیث کی ابتدا میں روکنا اور آخر میں غیرت پر تعریف کرنادونوں میں مطابقت ہو جاتی ہے۔
قتل غیرت کے بارے میں عصری قانون کا نکتہ نظر
سابقہ اوراق میں اس مسئلہ کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے جس میں اس کی سزا پر شرعی آرا بھی شامل ہیں ، البتہ اس مسئلہ میں مختلف ممالک کے معاصر قوانین میں ایک اور پہلو کوپیش نظر رکھا گیا ہے۔ لیکن دلچسپ امر ہے کہ مغرب ومشرق اور اسلامی ممالک کے جدید قوانین حتیٰ کہ پاکستانی قانون میں بھی قتل غیرت کو عام قتل قرار نہیں دیا جاتا۔اسلامی ممالک کے وضعی قوانین کی روسے اسے قتل ِخطا قرار دے کر مجرم کو سزا میں رعایت کا حقدار بتایا گیاہے۔جس کی وجہ یہ ہے کہ جدید قانون اسے اشتعال کے تحت ہونے والے جرائم کے تحت لاتا ہے اور ایسا اشتعال جس میں انسان کے ہوش وحواس قابو میں نہ رہیں ، یا جس میں انسان کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچے اور وہ بے قابو ہوکر کوئی اقدام کر بیٹھے تو ایسی صورت میں جدید قوانین اسے قتل خطا قرار دے کر رعایت عطا کرتے ہیں ۔
جہاں تک اس مسئلہ کے بعض دیگر پہلووں کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں ماہنامہ محدث میں چند برس قبل (جون 1999ء) قتل غیرت کے موضوع پر شائع ہونے والے مقالے میں جسے محمدعطاء اللہ صدیقی نے تحریر کیا تھا، معاصر اسلامی ممالک کے قوانین کی مکمل تفصیل دی گئی ہے۔ اس مقالہ میں مغرب میں فوری اشتعال کے تحت ہونے والے قتلوں کو حاصل ہونے والی رعایت پر مبنی واقعات کا تذکرہ بھی موجودہے۔پاکستان کی عدالتیں بھی اسی کے مطابق اپنے فیصلے دیتی رہی ہیں بلکہ اِنہی سالوں میں بھی ایسے کئی فیصلے دیے گئے ہیں جن میں قتل غیرت کے مجرم کو سزا میں رعایت دی گئی ہے۔ اسی موضوع پر ایک اہم مقالہ محترمہ مسز ثریا علوی کا ہے جو ان کی کتاب ’جدید تحریک ِنسواں اور اسلام‘میں مطبوع ہے۔محمد عطاء اللہ صدیقی لکھتے ہیں :
”اُردن کے مجموعہ تعزیرات1960ء کے آرٹیکل 340 کے الفاظ یہ ہیں : (i) کوئی