کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 64
قتل کو سن کر ان کی غیرت کی تعریف کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ نے تقریراً اُس کوگواراکیا) … مزید فرماتے ہیں : ولم ينكر عليه ولا نهاه عن قتله لان قوله صلی اللہ علیہ وسلم حكم ملزم وكذلك فتواه حكم عام للأمة فلوأذن في قتله لكان ذلك حكمًا منه بأن دمه هدر في ظاهر الشرع وباطنه ووقعت الفساد التى درأها الله بالقصاص وتهالك الناس في قتل من يريدون قتله فى دورهم ويدعون أنهم كانوا يرونهم على حريمهم فسدَّ الذريعة وحمى المفسدة … الخ (زاد المعاد: 5/408) ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عزم کا انکار نہیں کیا ، نہ ہی ان کو قتل کے عزم سے روکا، کیونکہ آپ (اگر صریح الفاظ سے اجازت فرما دیتے تو آپ) کا حکم ماننا سب کے لئے لازمی ہوجاتا، ایسے ہی آپ کا یہ فرمان عامة المسلمين کے لئے حکم کا درجہ رکھتا، اگر آپ قتل کی اجازت دیتے توگویا یہ آپ کی طرف سے واضح حکم صادر ہوجاتا کہ مقتول کا خون ظاہر شرع (حکم وقانون) اور اللہ کے ہاں رائیگاں ہے۔ اس طرح وہ عظیم تر فساد (قتل وغارت) رونما ہوجاتا جسے اللہ تعالیٰ نے قصاص کے ذریعے روکا تھا(یعنی قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے)۔ اس طرح لوگ من مانے قتلوں کے لئے ہلاکت خیزی برپا کرتے اور اس دعویٰ کی بنا پر چھوٹ جاتے کہ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ فلاں مرد کو دیکھا تھا۔سدذریعہ کے طورپر، فساد کی روک تھام کے لئے او رخون کے تحفظ کے لئے آپ نے ایسا نہ کیا۔ (اور خاموش رہے) حضرت سعد کی دوسری حدیث میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ(وقوعہ کے بارے میں ) قاتل کی بات پر یقین کرنے کے بجائے شریعت کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا۔ جب حضرت سعد نے یہ کہا (دیکھئے:تیسری حدیث) کہ وہ گواہوں کا انتظار کئے بنا قتل کردے گا تو نبی کریم نے سعد کی غیرت پر تعجب کا اظہار کیااور انہیں کہا کہ ان کی غیرت بجا لیکن نبی کریم ان سے زیادہ غیرت رکھتے ہیں اور اللہ سب سے زیادہ غیرت مند ہیں ۔ اس آخری جملے کے دونوں مطلب ہوسکتے ہیں : (1)سعد کے حلف پرنبی کریم کا خاموش رہنے کامطلب یہ کہ انہوں نے اللہ اور بندے کے مابین توا س کو جائز قرار دیا ،لیکن ظاہری قانونی شرعی تقاضوں کے پیش نظر قتل سے منع کیا۔ اس طرح ا س حدیث کا آخر اپنے شروع سے متضاد نہیں رہتا۔ (2)دوسرا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم نے سعد کے اس عزم کو برا جانا اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہا : تم اپنے سردار کو دیکھتے نہیں کہ میں اسے روکتا ہوں اور یہ اصرار کیے جارہا ہے۔میں غیرت میں اس سے کم تر نہیں اور اللہ کی غیرت مجھ سے بھی بڑھ کر ہے۔چنانچہ نبی کریم نے چار گواہ لانے کا