کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 63
اس موقف کی تشریح
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اس موقف کی دلیل میں وہ واقعات اور فرامین ذکر کیے ہیں جب ایک شخص نے نبی کریم کے گھر میں جھانکا تو آپ نے اسے آنکھ پھوڑنے کی سزا دینے کی کوشش کی۔ جبکہ گھر میں دیکھنا اس قد رسنگین امر نہیں بلکہ آنکھ پھوڑنے والنے نے جھانکنے والے پر ایسے ردّ عمل کا ارتکاب کیا ہے جو باعث ِقصاص ہے۔لیکن چونکہ یہ ایک مسلمان کی حرمت وعزت میں دخل اندازی کا مسئلہ ہے، اسلئے اس میں شریعت نے اتنی سنگین سزا مقرر کی ہے ۔
عزت میں دخل اندازی کی اہمیت کا اس امر سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ کسی آدمی کا ستر دیکھنے پر بھی اتنی سنگین سزا نہیں جتنی مسلمان کے گھر اور اس کی عزت میں جھانکنے پر۔ اسلام نے ایسے معاملات کو غیر معمولی اہمیت دی ہے۔چنانچہ کسی کے حرم میں بدکاری کا فعل کیا جائے تو اس کی سزا بھی اتنی ہی سنگین ہوگی چہ جائیکہ وہ سزا قتل تک بھی پہنچ جائے۔ علامہ اس موقف پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے استدلال کرتے ہوئے یہ اشارہ دیتے ہیں کہ حضرت عمر نے قاتل کو یہ بھی کہا کہ اگرآئندہ ایسے ہو توپھر یہی کرنا ۔ گویا یہ امیر المومنین کی طرف سے اُسے اجازت نامہ ہے کہ اس جرم کی آئندہ یہی سزا پھر دینا۔ اس لئے اس میں قاتل کو زبان سے روکنے یا بھگانے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ اس کی سزا ہی یہ ہے۔ او ریہ سزا دینے والا کسی جرم کا ارتکاب نہیں کرتا۔
اس موقف پر سب سے بڑا جواعتراض وارد ہوتا ہے وہ نبی کریم کا فرمان یعنی حضرت سعد رضی اللہ عنہ کواس فعل سے منع کرنے کا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نامور شاگرد حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ بھی علامہ والے موقف کے ہی قائل ہیں اور اپنی کتاب میں اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی چاروں احادیث جن میں نبی کریم کی زبانی ’لا‘،’ نعم‘ اور غیرت کی تعریف کے جملے آئے ہیں ( دیکھیں صفحہ نمبر30 ) بیان کرکے لکھتے ہیں کہ جو شخص اس بات پر اعتراض کرتا ہے کہ پھر نبی کریم نے کیوں ایسے قتل سے منع کیا تو ا س کا جواب یہ ہے کہ
” اس حدیث (سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ )کو اکٹھا ملا کر پڑھیں توساری بات کھل جاتی ہے۔ نبی کریم نے پہلے پہل اس سے منع کیا، لیکن جب سعد بن عبادہ نے شدید غیرت کا اظہار کرکے اپنے عزم قتل کو دہرایا تو آپ نے قسم کہا کر اس کی غیرت کی تعریف کی۔ آپ کا یہ قسم کہا کر اس کی غیرت کی تعریف کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اگر وہ قتل کرلے تو اس پر کوئی تاوان یا سزا نہیں وآخر الحديث دليل على أنه لو قتله لم يُقدَ به… ولقال لو قَتَلْتَه قُتِلْتَ به وگرنہ آپ یہ جواباً فرماتے کہ اگر تم نے بیوی کو قتل کیا تو تمہیں جواباً قتل کیا جائے گا۔(آپ کا ان کے عزمِ