کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 62
(3)ایسا ہی واقعہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں پیش آیا کہ ایک شخص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس اس حال میں پہنچا کہ اس کے ہاتھ میں خون آلود تلوار تھی جس سے اس نے اپنی بیوی کو قتل کیا تھا، اس کے (پیچھے پیچھے بیوی کے) اہل خانہ اس کی شکایت لے کر آپہنچے تو اس آدمی نے کہا: میں نے ایک پستہ قد آدمی کو اس عورت کی رانوں پر دیکھا۔ چنانچہ میں نے وہیں پر تلوار سے اسے ضرب لگائی۔ حضرت عمر نے اس سے تلوار لی ، اُسے لہرایا ، پھر واپس لوٹاتے ہوئے فرمایا: اگر وہ دوبارہ ایسے کریں تو ایسا ہی کرنا“
یہاں بعض علما کی رائے ہے کہ قاتل سے یہ سزا اس صورت میں ہی ساقط ہوگی جب زانی شخص شادی شدہ ہو اور قاتل کے لئے مقتولہ کا خاوند ہونا یا نہ ہونا کوئی ضروری نہیں ۔یہ موقف امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھیوں نے اختیار کیا ہے۔
(میرے) اس موقف کی بنیاد دراصل یہ ہے کہ اس آدمی نے اس شخص(قاتل) کی عزت وحرمت پر دست درازی کی تھی۔ چنانچہ اسکے ساتھ غلط جگہ دیکھنے والے کی آنکھ کا سا سلوک ہونا چاہئے یا
(4)اس آدمی جیسا سلوک جس نے اپنا ہاتھ کاٹ کھانے والے کے منہ سے کھینچا تو کاٹنے والے کے دو اگلے دانت ٹوٹ گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دانتوں کا قصاص رائیگاں قرار دیا اور فرمایا: ”کیا وھ تیرے منہ میں اپنا ہاتھ باقی رہنے دیتا تاکہ تو اسے سانڈ کی طرح چباتا رہتا۔“ یہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے موقف (دفاع ) والوں کی پہلی دلیل ہے۔
جن علما نے اس موقف کو اختیار نہیں کیا، ان کا خیال ہے کہ دفاع دیگر آسان اقدامات سے بھی ہوسکتاہے اور اس سلسلے میں نص کا لحاظ رکھنا چاہئے لیکن اس نص کے مفہوم میں جدید وقدیم علما میں اختلاف ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے گھر میں چور آ داخل ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ تلوار لے کر اس کی طرف لپکے اور عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم آپ رضی اللہ عنہ کو پکڑ نہ لیتے تو لازمی تھا کہ آپ تلوار سے (چورکی گردن) مار دیتے۔ امام احمد بن حنبل نے سابقہ احادیث کے ساتھ اس واقعہ کو بھی اپنے موقف کی دلیل بنایا ہے۔
٭ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ مضروب شخص نے عملی طور پر بدکاری کا ارتکاب کیا ہو لیکن وہ داخل اس نیت سے ہوا ہو تو ایسی صورت میں بھی علما کے مختلف موقف ہیں جن میں سے محتاط ترین موقف یہی ہے کہ ایسے قتل کی صورت میں قاتل اللہ سے ہی توبہ کرلے۔
جہاں تک ایسے قتل کی دیت ادا کرنے کا تعلق ہے تو اس کا دیت ادا کرنا زیادہ محتاط رویہ ہے۔ یاد رہے کہ دیت قتل خطا میں عائد ہوتی ہے۔ جہاں تک قتل عمد کا تعلق ہے تو جمہور علما (مثلاً امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور موقف) کے مطابق اس قتل پر دیت نہیں دی جاسکتی، البتہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے دوسرے موقف کے مطابق دیت ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔“