کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 61
هنا لك بالسيف فأخذ السيف فهزه ثم أعاده إليه فقال: إن عاد فعُد. ومن العلماء من قال يسقط القود عنه إذا كان الزاني محصناً سواء كان القاتل هوزوج المرأة أوغيره كما يقوله طائفة من أصحاب الشافعي وأحمد والقول الأول إنما مأخذه أنه جنٰى على حرمته فهو كفقء عين الناظر وكالذي انتزع يده من فهم العاض حتى سقطت ثناياه فأهدر النبى دمه وقال: يدع يده فى فيك فتقضمها كما يقضم الفحل؟ وهذا الحديث الأوّل القول به مذهب الشافعي وأحمد. ومن العلماء من لم يأخذ به قال: لأن دفع الصائل يكون بالسهل والنص يقدم على هذا القول وهذا القول فيه نزاع بين السلف والخلف فقد دخل اللص على عبدالله بن عمر فأصلت له السيف قالوا: فلولا أنا نهيناه عنه لضربه وقد استدل أحمد بن حنبل لفعل ابن عمر هذا مع ما تقدم من الحديثين وأخذ بذلك. وأما إن كان الرجل لم يفعل بعد فاحشة ولكن وصل لأجل ذلك فهٰذا فيه نزاع، والأحوط لهٰذا أن يتوب من القتل من مثل هذه الصورة وفي وجوب الكفارة عليه نزاع، فإذا كفّر فعد فعل الأحوط فإن الكفارة تجب في قتل الخطإ وأما قتل العمد فلا كفارة فيه عند الجمهور: كمالك وأبى حنيفة وأحمد في المشهور عنه،وعليه الكفارة عند الشافعي وأحمد في الرواية الأخرىٰ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ :34/168،169) ”حمد و ثنا کے بعد! اگر تو اُس آدمی نے ان دونوں کو بدکاری کی حالت میں دیکھ لیا اور اس امر کے باوجود کہ وہ شخص(قاتل) ان دونوں کو بات چیت کے ذریعے اس فعل بد سے روکنے پر قادر ہو، اُس نے اپنی بیوی کو قتل کردیا تو ایسی صورت میں اکثر علما کے خیال میں عنداللہ اس پر کوئی دیت (یا تاوان وغیرہ) عائد نہیں ہوتی۔ حنابلہ کا مشہور ترین موقف بھی یہی ہے جس کی دلیل صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ اگر کوئی شخص تیرے گھر میں جھانکے اور تو (اس کی پاداش میں ) اسکی آنکھ پھوڑ دے تو تجھ پر کوئی تاوان عائد نہیں ہوتا۔ (بخاری ومسلم) (2)اسی سے ملتا جلتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ ہے کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ایک شخص نے جھانکا تو آپ نے چبھنے والی کسی شے سے اس کی آنکھ پھوڑنے کی کوشش کی،اگر وہ اس کو لگ جاتی تو لازماً اس کی آنکھ ضائع ہوجاتی۔اور آپ نے فرمایا : ”اجازت لینے کا مقصد یہی ہے کہ جھانکنے سے باز رہا جائے۔“ (بخاری و مسلم) یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کو کلام کے ذریعے (اس جھانکنے سے) روک سکتے تھے، لیکن آپ نے ایسا نہ کیا۔