کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 58
ہے، اسی لئے ایسے قاتل کو باعتبار قاتل تو سزا نہیں دی جائے گی، البتہ انتظامی جرم کی سزا اُنہیں ضرور ملے گی۔ اور یہی مسالک ِاربعہ کی رائے ہے۔“ (اسلام کا فوجداری قانون: 2/193) اسی اُصول کی بنا پر اگر قاتل کنواری عورت کو بدکاری کی پاداش میں بعد از بدکاری قتل کردے توچونکہ کنواری عورت کی سزا رجم نہیں بلکہ 100کوڑے ہے، اس لیے قانوناً قاتل پر قصاص لاگوہونا چاہیے۔ لیکن اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا،کیونکہ مقتولہ عورت سنگین گناہ کی مرتکب ہوکر معصوم نہیں رہی۔ اس کے گناہ گار ہونے کا فائدہ قاتل کو یوں ملے گا کہ اس پر دیت یا تاوان عائد ہوگا۔ البتہ مجبور عورت کو قتل کرنے والے سے قصاص ہی لیا جائے گا کیونکہ وہ عورت معصوم الدم ہے۔جب ایسی رعایت یا شبہ پیدا ہوجائے تو اسلامی شریعت میں قتل کی سزا قصاص سے کم ہوکر دیت تک آجاتی ہے۔ گذشتہ فیصلہ جات میں کنوارے یا مشتبہ مقتولین کے قاتل پر دیت عائد کرنے کی یہی وجہ ہے۔ ٭ اس تمام صورتحال میں زیادہ سنگینی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ملک میں عدل وانصاف بہت مشکل ہو یا اس کا دورانیہ طویل ہو، یا عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو۔بالخصوص ان حالات میں جب عدالتیں اسلامی نظام کے بجائے غیراسلامی قوانین سے فیصلے کرتی ہوں تو ایک مسلمان ان سے فیصلہ کروانے میں ویسے ہی ہچکچاتا ہے۔جیسا کہ نکاح میں والدین کو نظر انداز کرنے کی لگاتار عدالتی روش سے تنگ آکر لوگوں نے یہ فیصلے عدالتوں کے بجائے خود ہی نمٹانا شروع کردیے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں عامی شخص اس عدالتی جھنجٹ میں پڑنے کی بجائے قانون کو خود ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ جو لوگ پاکستانی معاشرے کو قانون کی پابندی اور امیر کی اطاعت کا درس دیتے ہیں ، انہیں یہ بھی دیکھنے کی زحمت گوارا کرنا چاہئے کہ نہ یہ قانون اسلامی ہے اور نہ یہ امیرالمومنین کی خلافت ہے۔اس ملک میں عدالتوں میں لے جانے والے جھگڑوں سے جس طرح ایک مسلمان کی عزت سربازار رسوا کی جاتی ہے اوراخبارات میں نمک مرچ لگا کر جھوٹے سچے قصے بیان کئے جاتے ہیں اور فیصلے لیتے زندگیاں بیت جاتی ہیں ، اس سے عوام الناس کو قانون ہاتھ میں لینے کی ہی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔جسٹس عودہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہ ہے : ”امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور احمد رحمۃ اللہ علیہ اس امر پرمتفق ہیں کہ شادی شدہ زانی کے قاتل پر قصاص ودیت نہیں ہے۔کیونکہ اس کا قتل بوجہ زنا کے جائز ہوگیا۔اب چونکہ سزائے زنا ’حد‘ کی قبیل سے ہے اور حدود میں نہ تو تاخیر ہوسکتی ہے اور نہ انہیں حکومت معاف کرسکتی ہے، اس لئے ایسے زانی کا قتل واجب ہے جو گناہ کو ختم کرنے اور حدود اللہ کو نافذ کرنے کیلئے ناگزیر ہے۔