کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 57
اسلامی ماہر قانون جسٹس عبد القادر عودہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : ”قتل کے سزا وار شخص کو خود قتل کرنا حکومت کے اختیارات پر دست درازی ہے، اس لئے قاتل کو باعتبار قاتل تو سزا نہیں ملے گی، البتہ قانون کوہاتھ میں لینے کی سزا ضرور ملے گی، یہی مسالک ِاربعہ کی راجح رائے ہے۔“ (اسلام کا فوجداری قانون: 2/193) شادی شدہ زانی کی سزا رجم یعنی قتل ہے۔اگر کوئی شخص اسے قتل کردے تو قاتل پر قتل کی سزا نہیں بشرطیکہ قاتل قانونی طور پر ان کا اثباتِ جرم کردے اور اگر نہ کرسکے تووہ قتل کی سزا پائے گا۔ پہلی صورت میں قانون کو ہاتھ میں لینے پر تعزیری سزا دی جائے گی۔ (2/196) ٭ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل میں قاتل کے انتظامی جرم کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے اور اس کے بارے میں مسلم عدالتوں کے رجحانات بھی ذکر ہوچکے ہیں ۔غیرت کے نام پر اس قتل کے جرم میں دوسرا جو تصور زیر بحث آرہا ہے، وہ یہ ہے کہ مقتول معصوم الدم (پاکیزہ خون) نہیں ۔ قاتل کو اپنے گناہ کی بھرپور سزا اس وقت ملتی ہے جب مقتول معصوم ہو۔ اگر کسی مقتول نے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہو توگویا وہ اسلامی معاشرے کا بھی مجرم ہوتا ہے، ایسی حالت میں بھی قاتل کو رعایت ملتی ہے۔اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ کوئی انسان کسی قاتل کو موقع ملنے پر قتل کردے، حالانکہ اس قاتل کا قتل اس کا فرض نہ تھا بلکہ عدالت کی ذمہ داری تھی۔ ”جن لوگوں کے خون حلال ہیں (یعنی وہ معصوم الدم Protectedنہیں )، اگر کوئی شخص اُنہیں قتل کردے تو وہ قاتل متصور نہیں ہوگا۔کیونکہ رائیگاں خون کا قتل باعتبار فعل قتل، جرم متصور نہیں ہوتا۔چونکہ بذاتِ خود یہ فعل(قتل) جائز تھا۔لیکن چونکہ ان افراد کا قتل ریاست اور اقتدارِ عامہ کی ذمہ داری تھی، اس لئے ایسے غیر معصوم الدم افراد کو قتل کرنا اقتدارِ عامہ پر دست دراز ی